عیدالاضحیٰ نفسانی خواہشات کی قربانی کا دن

Madina Munawar

Madina Munawar

اسلامی تہوار دوسری تمام اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ یہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار قربانی کا وسیلہ بھی۔ ابو دائود شریف میں روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان۔ نیروز) خوشی کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی ”جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحٰی۔

اسلام نے ان ایام میں تجمل، زیب و زینت اور رکھ رکھائو کو تو باقی رکھا البتہ زمانۂ جاہلیت کی رسم و رواج جیسے لہوو لعب اور کھیل کود میں وقت کے ضیاع کو ختم کر دیا اور جشن کے ان ایام کو خدائے بزرگ و برتر کی اجتماعی عبادت کے ایام بنا دیا تاکہ ان کا یہ تجمل و اجتماع یاد الہٰی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔

ایک طرف اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے دنیاوی فرحت و انبساط کے اہتمام کی اجازت دی تو دوسری طرف ان کیلئے بندگی کے دورازے کھول دئیے تاکہ یاد الٰہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیونکہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے در حقیقت اپنے جذبہ عبودیت کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بڑا ہی پسند ہے کیونکہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو اس کی جان نثاری، اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ہو۔

Allha

Allha

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰة انسان کے مال وزر کی قربانی ہے۔ حج بیت اللہ انسان کی ہمت، مال و زر کی قربانی ہے غرض کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیں جو انسانی قربانی کے مترادف ہیں۔

قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے۔ جانور ذبح کرکے قربانی دینے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کر کے ذبح کر دیا جائے۔

اگر کوئی شخص جانور کی قربانی تو بڑے شوق سے کرے مگر خواہش نفس اور گناہوں کو نہ چھوڑے تو ایک واجب تو اسکے ذمے سے ساقط ہو جائے گا مگر وہ قربانی کی اصل روح سے محروم رہے گا۔ اس لیے قربانی کی ظاہری صورت کے ساتھ ساتھ اسکی حقیقت کو حاصل کرنے عزم، کوشش اور دُعا بھی کرنی چاہیے۔

حضرت ابراہیم نے صرف ایک جانور کی ہی قربانی نہیں کی بلکہ اپنی پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزار دیا۔ اطاعت ِ الٰہی میں اپنی جان، مال، والدین، وطن، لخت جگر الغرض سب کُچھ قربان کر دیا۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے اندر قربانی کا سچا جذبہ پید کریں۔ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت اوراطاعت کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیع نہ دیں۔

Eid Ul Adha

Eid Ul Adha

ہمارے اسلاف و بزرگان دین نے عید کی خوشی عبادات کی قبولیت کیساتھ مشروط فرمائی ہے۔ جیسا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دو ر خلافت میں لوگ عید کے روز کا شانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیر المؤمنین دروازہ بند کر کے زارو قطار رو رہے ہیں لوگ حیرت زدہ ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یا امیر المؤمنین ! آج تو عید کا دن ہے اس دن خوشی و شادمانی ہونی چاہیے اور آپ خوشی کی بجائے رو رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید۔ اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور یہ دن وعید کا بھی۔ آج جس کی عبادات قبول ہو گئیں بلا شبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے۔

جس کی عبادات مردود ٹھہریں اس کیلئے آج وعید کا دن ہے اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔ معزز قارئین! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ سے ہیں مگر خوف الہٰی سے رو رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ فرائض و واجبات کی اصل روح سے قطع نظر محض ظاہری نمود و نمائش اور رکھ رکھائو پر نازاں ہیں۔ آئیے آج کے دن ہم یہ عہد کریں کہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کریں گے کیونکہ اسی میں ہماری دینوی و دنیوی کامیابی ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔(آمین)

تحریر : علامہ محمد غفران محمود سیالوی