بزرگ والدین اور دور حاضر

Masjid

Masjid

آج سے کچھ عرصہ قبل میں ایک پرانا گولیمار ریکسرلائن علی محمد ولیج کی قادری مسجد میں امام و خطیب تھا اور اس دوران مجھ قرب و بعید کے لوگ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ افتاء کے سولات بھی پوچھتے ان میں طرح طرح کے سوالات ہوتے اور میں کتب بینی کر کے ان کا جواب دیتا اس ہی عرصہ میں میرے ایک مہربان جن کا تعلق سلطان آباد کے علاقے سے ہیں اپنے کسی قریبی بزرگ دوست کو لے کر آئے ان کا ایک سوال تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اولاد مجھے خرچہ نہیں دیتی تو نہ دے مگرکم سے کم میرے جس مکان میں وہ رہائش پذیر ہے اسکا کرایہ جتنا بنتا ہے وہ ہی دیں دے تاکہ میں آپ زندگی کے ایام کا گزر بسر کر سکوں۔ میں کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے ان کا پوچھا ہوا سوا ل اور پھر مع اسکا جواب آپ کے گوش گزار کرتا ہو۔ ۔کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین کثر ہم اللہ المبین بیچ اس مسئلے میں کہ والدین کے کیا حقوق ہیں اور کیا عند الشرع والدین کی ملک چیزوں پہ غاصبانہ طور پہ انکی اولاد انکی حیات میں جبرا قبضہ کر سکتی ہے بینوا تو جروا(بیان کرو ثواب کماو)الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایہ الحق و الصواب۔ حقوق والدین کے متعلق صرف اتنا ہی کا فی ہے۔

اللہ تعالی نے اپنی توحید کے ساتھ ہی والدین سے حسن سلوک کادرس بھی دیا اس کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایاکہ ”و اذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا وذی القربی والیتامی ولمساکین” ترجمہ کنز الایمان جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے(سورة بقرہ آیت٨٣)اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالی نے جو احکام بیان کئے وہ تمام کے تمام بعد میں بیان کئے سب سے اول توحید کو رکھا اور اسکے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اور اسکے بعدبقیہ احکام کو اور اللہ تعالی نے ہر اس چیز کی مما نعت فرماتا ہے جو والدین کو تکلیف و اذیت کا سبب بنے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ”ولاتقل لھما اف ولاتنھر ھماو قل لھما قولا کریما”ترجمہ کنزالایمان تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا (سورة بنی اسرائیل آیت٢٣) والدین کے آگے اف تک بولنے کو بھی رب نے حرام قرار دیا تو اس سے بڑھ کہ کیا سکتا ہے اور جو والدین کی نافرمانی کرے یا والدین کی خدمت کر کے حصول جنت نہ کر سکے تو وہ بہت ہی بد بخت انسان ہے اس ضمن میں امام محمد بن اسماعیل البخاری نے حضرت ابو بکرة سے ایک حدیث پاک نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ”قال قال رسول اللہ الاانبئکم کم باکبر الکبائرقلنابلی یارسول اللہ قال الاشراک باللہ وعقوق الوالدین”ترجمہ فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے صحابہ میں تمہیں سب سے بڑھے گناہ کے متعلق نہ بتاو صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ہاں توا پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنا(بخاری کتاب الادب باب عقوق الولدین من الکبائر)اس لئے اولادپہ والدین کایہ حق ہے۔

Parents

Parents

ہر طرح سے والدین کی خد مت کرے اور انکی اس ہی طرح دیکھ بھال کرے جس طرح انہوں نے بچپن میں اپنی اس اولاد کی اور اولاد یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کل انہوں نے بھی اس حالت کو پہچنا ہے اور اسی طرح اپنی اولادکا محتاج ہونا ہے جیسا وہ آج اپنے والدین کے ساتھ کرے گے ایسا ہی کل انکے ساتھ بھی ہو گابحکم قرانی ”الایام نداولھا بین الناس”ترجمہ کہ م دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں (القران)اس لئے اولاد کو ہو ش کے ناخن لینے چاہیے ۔اوررہا مسئلہ مال ناحق کھانے کا تو کسی کا مال نا حق کھانا حرام ہے اسکی حرمت پہ نص قرانی ناطق و گواہ ہے چنانچہ ارشادربانی ہے ”ولاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل”ترجمہ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نہ حق نہ کھاو ”(سورہ بقرہ آیت ١٨٨) ایک اور مقام پہ بھی اس ہی طرح کا ارشاد ہے کہ”یا یھا الذین امنوا لاتاکلو ا امولکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارةعن تراض منکم”ترجمہ کنزالایمان اے ایمان والو ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاو مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو(سورة نساء آیت ٢٩) سید نعیم الدین مرادی بادی علیہ الرحمہ اس آ یہ کریمہ میں لفظ بالباطل کی تفسیر لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ”چوری خیانت غصب جوا”(خزائن العرفان سورہ نساء حاشیہ ٩١) لہذا غصب شدہ مال کھانا حرام ہے یہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں اور اولاد کے لئے تو اور ہی ذیادہ ممنوع و حرام ہے کیونکہ کہ ایک تو مال غصب اور دوسرا والدین کی دل آزاری و تکلیف بھی اور ولدین کی تعظیم کی بابت آپ نصوص قرانیہ مطالعہ کر چکے اس لئے ایسی اولاد کو چاہے کہ فوری طور پہ ایسے ارادے سے بھی باز آئیں اور والدین سے معافی مانگے ورنہ دو دن کی زندگی کی خاطر اپنی آخرت اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کو بربا د مت کریں۔ واللہ ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم۔

صاحبزادہ مفتی مامون الرشید قادری.03022341334 اب قابل غور بات یہ ہے کہ ایک والد اپنے بارے میں اس مثلہ کی وضاحت معلوم کر رہا ہے اس کو انصاف چاہیے مگر مقام افسوس تو یہ ہے کہ اس پہ ظلم و ستم کرنے والا کوئی عام فرد نہیں بلکہ وہ بیٹا ہے جس کے لئے یہ جنت کا دروازہ ہے ظلم کرنے والاوہ ہے جس کے بارے میں حکم ہے کہ کوئی عمل کئے بن صرف نظر کرئے تو اس کو ثواب ملتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ”النظر الی الوالد عبادة”ترجمہ کہ والد کے چہرے کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے (الحدیث) یقینا یہ ایک مثال ہے ہمارے سامنے ہمارے اس ملک پاکستان میں اس جمہوریہ میں ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں اس وقت بھی ایسی باتیں موجود ہیں جن کا خاتمہ کرنے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے کم و پیش چودہ سو سال پہلے تشریف لائے اور انہوں نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہم والدین کی تعظیم و تکریم کریں کیا ہم مکافات عمل کو بھول گئے کیا ہم قران مجیدکی آیات کو پس پشت ڈال گئے۔

کیا ہم اللہ تعالی کے فرامین کونسیامنسیا کر گئے کہ جو آج یہ نوبت یہاں تک آگئی کہ ہم والدین کو اتنا حق بھی نہیں دے رہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام سکون و اطمینان کے ساتھ بسر کر سکیں کیاہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ انکا خدمت کا حق تو بجا کہ ان کو دیں بلکہ ان کی ملکیت پہ ان کی حیات پہ ہی قبضہ کرنے لگ گئے ہیںکیاہمیں وہ وقت یاد نہیں جب ہم بچے تھے تو ان والدین نے ہماری پرورش اس انداز میں کی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہمیںپیدا کیا اور ہمیں اپنی خاص نگہداشت میں رکھاتاکہ ہم زمانے کی تپش سے محفوظ و مامون رہ کر اپنے جو بن کو پہنچ سکیں جب ہم اس مقام پہ پہنچے تو ہم نے والدین کو ہی ڈسنا شروع کر دیا کیاہم اس دن کو بھول گئے کہ جب ہم بھی اس نہج پہ پہنچ جائیں گے کہ ہماری بھی موجود اولاد پل بڑھ کہ اپنی عروج کوپہنچ چکی ہوگی تو اس وقت اگر یہ سلوک ہمارے ساتھ ہو ا تو ہم کیاکریںگے یہ تو ایک چکر یہ ایک مدار ہے یہ ایک نشیب و فراز ہے یہ ایک عروج و زوال ہے آج کسی پہ تو کل مجھ پہ اگلے دن کسی اور پہ ۔اور اس ہی نقطے کو اللہ تعالی کی کتاب کلام مجید برہان رشید بیان کرتے ہو ئے بتاتی ہے کہ ”الایام نداولہابین الناس”کہ ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان دنوںکوپھیرتے ہیں(القران) اس لئے ہمیں وہ ہی سلوک اپنی والدین کے ساتھ کرنا چاہیے جو کہ ہم چاہتے ہیں کہ کل ہماری اولاد بھی ہمارے ساتھ کرے۔ یہ تو میں نے آپ کے سامنے ایک مثال پیش کی ورنہ کئی اور بھی امثلہ ہو گی جو کہ ہمارے قرب و جوار میں ہو ں گی اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے عروج و جوبن کو سمجھتے ہو ئے اس وقت کو یاد رکھیں ۔

جب ہمیں بھی کسی سہارے کی ضرورت ہو گی ہم بھی کسی کے رحم و کرم پہ ہو ں گے ۔اور اس کے بعد ہم جب مر نے کے بعد بارگاہ خدا وندی میں حاضر ہو ں گے تو اس وقت بھی جو ب دے ہو نا پڑھے گااس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے حضور سر خرو ہو نے کے لئے ایسی حرکتوںسے باز آئیں جن سے ہمارے معاشرے کا نظام برباد ہوتاہو اورہماری آخرت خراب ہو تی ہو۔

Mamoon Rashid Sheikh Qadri

Mamoon Rashid Sheikh Qadri

تحریر: مفتی مامون الرشید قادری
muftimamoon@gmail.com
03022341334