عام انتخابات میں امیدواروں کی سکروٹنی، سخت انتظام وقت کی ضرورت

Election Commission

Election Commission

تحریر : سید توقیر زیدی

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ” عام انتخابات 2018 میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اسکروٹنی ایف آئی اے، نیب، ایف بی آراور سٹیٹ بینک سے کروائی جائے گی۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد انتخابی شیڈول کے مطابق عام انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور امیدوارآج سے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن میں جمع کروانا شروع کردیں گے۔ الیکشن کمیشن نے بھی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے 4 ٹیموں پر مشتمل 36 رکنی سینٹرل اسکروٹنی سیل تشکیل دے دیا گیا ہے جس کے انچارج سیکریٹری الیکشن کمیشن ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اسکروٹنی سیل باضابطہ طور پرآج سے کام شروع کر دے گا، اسکروٹنی سیل 2 شفٹوں میں 24 گھنٹے کام کرے گا اور ریٹرننگ افسران و متعلقہ اداروں کے درمیان مکمل تعاون رہے گا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اسکروٹنی سیل امیدواروں کی آرٹیکل 62،63 کے مطابق جانچ پڑتال کو یقینی بنانے میں مدد دے گا، جب کہ نادرا، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک سے بھی رابطے رہیں گے اور امیدواروں کی سکروٹنی کے حوالہ سے مدد ھاصل کی جائے گی۔ اسکروٹنی سیل امیدواروں کی دوہری شہریت، قرضے، ڈیفالٹر، انکم ٹیکس کی معلومات بھی اکٹھی کرے گا۔” عام اتخابات میں شریک ہونے کے خواہش مند امیدواروں کی جانچ پڑتال الیکشن کا سب سے اہم مرحلہ ہے ، ماضی میں اس کے حوالہ سے بے شمار شکایات بھی منظر عام پرآتی رہی ہیں ، لیکن اب الیکشن کمیشن کی جانب سے تحقیقاتی اداروںنیب ، ایف آئی اے،ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے مدد حاصل کرنے کا اعلان خوش آ ئند ہے ، اگر اس فیصلہ پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بدکردار اور کرپٹ عناصر کا راستہ نہ روکا جاسکے ،

الیکشن کمیشن نے آئین کی شق 62اور 63کے حوالہ سے جانچ پڑتال کا بھی اعلان کیا ہے ، اس حوالہ سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں شقیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ امیدوار صادق اور امین ہو یعنی وہ اپنے تمام اثاثہ جات نہ صرف ڈیکلیئر کرے بلکہ انہیں جائز ثابت بھی کرسکتا ہو، لیکن دوسری جانب یہ بھی ابہام موجود ہے کہ پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں نے ملی بھگت سے انتخابی گوشواروں سے آئین کی شق 62اور 63سے متعلق معلومات کی فراہمی کے کالم ہی ختم کردئے ہیں ، جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ان کے اس فیصلہ کو بحال رکھتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کردیا ہے ، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک امیدوار اپنے اثاثے اور اپنے خلاف مقدمات وغیرہ انتخابی گوشواروںمیںڈکلیئر ہی نہیں کرے گا تو اس کی سکروٹنی کس طرح سے کی جاسکے گی ،دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مکمل اور غیر جانبدار سکروٹنی نہ کی گئی تو الیکشن کا تمام عمل ہی لایعنی ہوکر رہ جائے گا ، اور الیکشن کے تین برس بعد پھر کوئی وزیر اعظم مجھے کیوں نکالا الاپتا پھرے گا اورملک کا سیاسی درجہ حرارت عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ ہماری تجویز ہے کہ اگر چہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے ،

اس کے باوجود الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے ، شفاف انتخابات کے حوالہ سے وہ ہر ایک اقدام کرسکتا ہے ، اسے چاہئے کہ اگر واقعی مستحکم سیاسی نظام کی خواہش ہے تو پھر آئین کی متعلقہ شقوں کو بحال رکھتے ہوئے ان پر من و عن عمل درآمد بلا کسی استثنیٰ کیا جائے ،اگر ایسا ممکن نہیں تو آدھا تیتر آدھا بٹیر کے بجائے صادق وامین کی شرط ختم کرکے صرف ختم نبوت? اور مذہبی نوعیت کے معاملات کی سکروٹنی ممکن بنا لی جائے۔ لیکن یہ سب نہ تو آئین کی منشا ہے اور نہ ہی اس سے سیاسی استحکام آئے گا، بلکہ ماضی کا رونا دھونا لگا رہے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ ہے ہی نہیں کہ الیکشن کا بر وقت انعقاد انتہائی اہم ہے۔ لیکن اگر اس عمل میں شفافیت اور سکروٹنی کو یقینی بنانے کی خاطر عدالت عظمیٰ کو عجلت میں فیصلے لینے پڑ رہے ہوں تو چند دن کی تاخیر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔الیکشن کا انعقاد اہم ہے مگر اس سے قبل الیکشن لڑنے والوں کی بنیادی قابلیت اور ان کی دیانتداری کو چیک کرنا بھی انتہائی اہم ہے ، تاکہ کرپشن کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور ملک ترقی کی راہ پر چل سکے،

لہٰذا الیکشن کمیشن اور اس سے متعلق تمام اداروں کو چاہئے کہ وہ مل کر ایسا نظام وضع کرجائیں کہ اس الیکشن میں اور آنے دور میں بھی کوئی مشکوک کردار کا حامل شخص عوامی نمائندگی اور ملک پر حکمرانی کا خواب بھی نہ دیکھ سکے۔اس وقت ایسی پالیسی کی ضرورت ہے کہ جس سے الیکشن پر مثبت اثرات مرتب ہوں اورملکی ادارون کا وقار بحال ہوسکے ، برے کردار والوں کا راستہ روک کر کرپشن کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ صاف کردار کے لوگ سامنے آئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن نے کوئی مناسب اور بڑا سٹیپ نہ لیا تو یہ الیکشن بھی ماضی کے انتخابات کی طرح کردار سے خالی اور عمل سے عاری لوگوں کی آماجگاہ بن کر رہ جائے گا اور قوم کے منتخب ادارے اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے بجائے لوٹ مار مچانے اور پھر اس رقم کو ٹھکانے لگانے میں ہی مصروف رہیں گے۔ لہٰذا اس وقت لازم ہے کہ ہر طرح کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الیکشن کے عمل ہی کی حفاظت پر سارا زور نہ لگایا جائے اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کی روح کو پامال ہونے سے بچایا جائے۔ اس کا بہترین طریقہ آئین کی شقوں پر عملدرآمد اور کڑی نگرانی کے سوا کچھ نہیں۔

افغان سرزمین پر بھارتی ایجنٹو ں کی کاروائیوں کے تدارک تک قیان امن ممکن نہیں افغان سرزمین پر رمضان المبارک کے مقدس اور پر امن مہینے میں بھی دہشتگردی اور خونریزی جاری ہے ، ایک طرف کابل کی ایک یونیورسٹی میں مذہبی اجتماع پر خود کش حملہ ہوا،جس میں ایک اطلاع کے مطابق سات اور دوسری کے مطابق 12افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ، دوسری جانب افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے جاری ہیں باجوڑ ایجنسی سے ملحق افغان سرحد پر باڑ لگانے کے دوران افغانستان سے دہشت گردوں نے 24 گھنٹوں میں سات مرتبہ پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے بھی پھر پور جوابی کارروائی کرتے ہوئے چھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ اس واقعہ میں چار ایف سی اہلکاروں سمیت ایک پاک فضائیہ کا اہلکار زخمی ہوگیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق انسداد دہشت گردی کیلئے باڑ لگانے اور چیک پوسٹوں کا عمل جاری رہے گا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ان حملہ آوروں کو افغانستان کے اندر سے معاونت حاصل رہی ” یونیورسٹی میں بم دھماکہ ہو یا پاکستان کے ساتھ سرحد پر حملے دونوں ہی قابل مذمت اقدامات ہیں اور ہم ان کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے برادر پڑوسی ملک کی سرزمین اس وقت اسلام دشمن عناصر کے تصرف میں ہے اور اس سے بڑی بد قسمتی یہ کہ ان عناصر کو افغان حکومت کی مکمل سر پرستی حاصل ہے ، پاکستان کی جانب سے ایک سے زیادہ بار افغان حکومت کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ دہشت گرد عناصر سے چھٹکارہ حاصل کرے اور اپنی سرزمین سے بھارت اور اس کے اجنٹوں کو پلتا کرے لیکن اشرف غنی حکومت اس تمام باتوں سے اتفاق کے باوجود عملاً ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار دکھائی نہیں دیتی ، نتیجہ یہ ہے کہ خود افغانستان کے اندر اور افغانستان سے پاک سرحدوں کی جانب خونریزی کا سلسلہ جاری ہے۔ افغان حکومت کی اسی پالیسی سے تنگ آکر پاکستان نے بارھ لگاکر سرحد بند کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔لیکن وہاں مصروف عمل بھارتی ایجنسی را اور اسرائیلی موساد اسے برداشت کرنے کو تیار نہیں ، نت نئے بہانوں سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت کو پاکستان کی امن تجاویز پر دھیان دینا چاہئے تاکہ افغان شہری بھی امن سے رہ سکیں اور پاکستان کو بھی دہشت گردی سے نجات مل سکے۔

گاڑیوں کی رجسٹریشن کا جدید نظام کئی مسائل کا حل ثابت ہوسکتا ہے ”محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے زیر اہتمام صوبہ بھر میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے فروخت کنندہ اور خریدار کی بائیو میٹرک تصدیق کا نیا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔محکمہ ایکسائز ،ٹیکسیشن و نارکوٹکس کنٹرول پنجاب کے ذرائع نے بتایاکہ گاڑیوں کی ملکیت کے عمل میں جعلسازی اور التوا کی روک تھام کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی جانب سے نئے نظام کا اطلاق یکم جون 2018 سے ہونا تھا تاہم تین یوم کی تاخیر کے بعد یہ نیا نظام لاگو کردیا گیا ہے۔جس کے تحت گاڑی ٹرانسفر کروانے کے لیے فروخت کنندہ اور خریدار کا ازخود ای ٹی اوکے سامنے پیش ہو کر موقع پر بائیومیٹرک تصدیق کو لازم قرار دیا گیا ہے او ر خبردار کیا گیاہے کہ 3جون کے بعد ٹرانسفر ڈیڈ کی بنیاد پر گاڑیوں کی ملکیت کی منتقلی کا پرانا طریقہ کار متروک ہو چکا ہے۔پنجاب کے محکمہ ایکسائز کی جانب سے ٹرانسفر کا جدید نظام نافذ کرنا قابل تعریف قدم ہے اور اس پر اگر شفافیت کے ساتھ عملدرآمدکیا جائے تو اس سے کئی ایک مسائل سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے ، جن میں چوری کی گاڑیوں کی دھوکہ سے رجسٹریشن اور جعلی رجسٹریشن جیسے معاملات شامل ہیں ، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ تمام کام کمپیوٹرائزڈ کردیئے جانے کے باوجود بھی ایجنٹ مافیا متحرک تھا اور اندرون خانہ رشوت کا بازار بھی گرم تھا مگربائیو میٹرک نظام کے بعد یہ سلسلہ رک جائے گا۔ اس حوالہ سے ایک ممکنہ مسئلہ کی نشاندہی بھی بھی لازم ہے تاکہ بروقت تدارک ممکن بنا جا سکے ، چونکہ بایئو میٹرک میں دونوں پارٹیوں کی حاضری لازم ہے لہٰذا ہجوم اور اڑدھام کی کیفیت سے بچنے کی خاطر لازم ہے کہ مناسب اور بنیادی نوعیت کے اقدامات پہلے ہی کرلئے جائیں تاکہ عوام کا قیمتی وقت بچایا جاسکے۔ اس حوالہ سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پنجاب کی سطح پر اس جدیدترین اور فول پوروف نظام کا اصل فائدہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب دوسرے صوبے بھی اسی نظام پر منتقل ہو جائیں گے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی