سب کچھ بدلنا ہوگا

parrot

parrot

انتہائی مشہور اور زبان زد عام کہانی ہے کہ ایک دفعہ طوطا اور مینا اپنے جنگل سے دوردوسرے جنگل کی سیر کو نکلتے ہیں ۔اور جب سیر و تفریح کرکے واپسی کا ارادہ کرتے ہیں تو شام کے سائے ڈھل کر اندھیرے میں تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں۔وہ دونوں پریشان ایک درخت پر بیٹھے اسی بارے بات کررہے ہوتے ہیں کہ اُن کے ساتھ والے درخت کے گھونسلے سے ایک اُلو باہر آتا ہے اور اُن دونوں کو رات اپنے یہاں قیام کی دعوت دیتاہے کہ رات بسر کرکے صبح ہوتے ہی اپنے گھر کو روانگی کر لینا۔طوطا و مینا خوشی خوشی اس کی دعوت قبول کرلیتے ہیں۔

اُلو اُن کی خوب آئو بھگت کرتا ہے جس سے دونوں بہت خوش ہوتے ہیں۔صبح ہوتے ہی طوطے نے اُلو کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور اجازت چاہی ‘اور مینا کو لیکر جانے لگا تو دفعتاًاُلو بولا ارے بھائی تم میری بیوی کو کدھر لے جارہے ہو؟طوطا حیران و پریشان ہوکر بولا’ یہ تو میری بیوی ہے مگراُلو بضد ہوگیا کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے یا کوئی گواہی موجود ہے ؟اور دونوں میں کافی بحث طول پکڑگئی’تو اُلو بولاچلو جنگل کے قاضی کے پاس جاکر اُس سے فیصلہ لے لیتے ہیں اور دونوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوجاتے ہیں۔

وہاں اُلو کے دلائل سُن کر قاضی اُلو کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے اور طوطا مایوس اور اُداس ہوکر جانے لگتا ہے تو پیچھے سے اُلو آواز دیتا ہے ”بھائی اپنی بیوی کو تو لیتے جائو”طوطا ششدر ہوکر دیکھتا ہے تو وہ کہتا ہے میں تو بس تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھاکہ جنگل کا کوئی قانون نہیں ہوتا مگر انصاف یہی ہے کہ مینا تمہاری بیوی ہے اور تمہارا حق ہے۔ کہانیاں تو دلچسپ ہی ہوتی ہیصرفکتابوں کی حد تک مگرحقیقت میں کہانی کا اختتام کتابی کہانی سے برعکس ہوتا ہے کہانی میں اُلو نے تو کیس جیتنے کے
بعد بھی حق کا فیصلہ خود کردیا مگر ہمارے یہاں ایسے لاتعداد اُلو وں کی کہانیاں بھری پڑی ہیں جو اپنا اُلو سیدھا کرنے کیلئے انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں کون سا انصاف اور کیسا انصاف یہ جنگل نہیں ہے ۔کاش ہم لوگ اُس اُلو جیسے ہی ہوتے۔

الیکشن کی گہماگہمی اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اُمیدواروں کے انٹرویو بھی مکمل ہوچکے ہیں کاغذات منظورر اور مسترد کا کھیل اختتام کو پہنچ چکا اب اپیلوں کو سننے کا عمل جار ی ہے۔اس نام نہاد کاغذی کاروائی کے کھیل میں بھی بڑے ہی محظوظ ہونے والے مناظر سامنے آئے اور کافی تماشا دیکھنے کو ملاریٹرننگ افسران نے بھی قواعد و ضوابط سے ہٹ کر سوالات کیئے۔کیونکہ یہ ہمارے سسٹم کا دستور بن چکا ہے کہ جس کے بھی پاس تھوڑی سی یاتھوڑے عرصے کو ہی طاقت مل جائے تو وہ خود کو مطلق العنان سمجھ لیتا ہے۔

سو حسب روایت ایسا ہی ہوا ریٹرننگ آفیسر نے ایسے ایسے ذاتی اور خالصتاً نجی زندگی بارے سوالات کیئے کہ پانی سر سے گزر جانے کے بعد مجبوراًہائی کورٹ کو فیصلہ دینا پڑا اور اُن عارضی طاقتور افسران کو حکم دیا کہ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر سوالات مت پوچھے جائیں۔مگریہ فیصلہ جب آیا اُس وقت کاغذات نامزدگی کاعمل مکمل ہونے میں 2دن رہ گئے تھے جو شغل میلہ کھیل تماشا ہونا تھا وہ ہوچکا تھا اور میڈیا کو چٹ پٹی خبریں مل چکی تھی جن پر روز نیا مرچ مصالحہ لگا کر عوام کو تفریح مہیا کی جاتی رہی خیر اس ساری صورتحال میں ایک عجیب بات ذہن میں گردش کرتی رہی اور لکھتے ہوئے ابھی تک گردش کررہی ہے۔

Pakistan

Pakistan

یہ 62,63 پورا اُترنا کیا ہے اس کے مقاصد کیا ہیںحالات سے تو یہ آئین کی دفعہ 62,63 کم اور سن 62,63 کے ملکی حالات زیادہ لگ رہے تھے جب تو 73 کا اآئین بھی وجود میں نہیں تھا اور اس دفعہ کاکوئی وجود ہی نہیں تھا ویسے انتہائی معذرت کے ساتھ اب بھی
بغور جائزہ لیا جائے تو صرف شور ہی ہے 62,63 کا اور عمل ندارد۔اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس 62,63 کے اغراض ومقاصد کیا ہیں کیونکہ یہاں مسرت شاہین تو صادق و امین پر پورا اُترتی ہے۔

جمشید دستی جیسے افراد نااہل ہوجاتے ہیں کہ جس نے منتخب ہوکر اپنے علاقے کا سارا نظام ہی بدل کر رکھ دیا۔ایاز امیر جیسا معروف کالم نگار اپنے دو کالموں کی وجہ سے مسترد ہوجاتا ہے کہ وہ 62,63 پر پورا نہیں اُترتا اور ایک واضح مثال بلکہ بدترین مثال کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ایک ہی ملک میں مختلف قانون ‘پرویز مشرف جس نے کھلم کھلا آئین توڑا اور بارہا آئین شکنی کرتا رہا پاکستان کے دو حلقوں سے اُس کے کاغذات مسترد ہوگئے اور چترال سے کاغذات پہلی ہی فرصت میں منظور ۔کیا چترال میں مملکت پاکستان کا آئین نہیں لاگو ہوتا ؟ کیا چترال کو آئین کی دفعہ 62,63 سے استشنی حاصل ہے۔

سب سے زیادہ حیرت اانگیزور دل چسپ بات یہ ہے کہ ریٹرننگ افسران نے جن اُمیدوران کے کاغذات پر اعتراض لگا کر مسترد کیئے تھے وہ اپیل کروا کر بحال ہوگئے ۔جمشید دستی کی سزا کالعدم قرار اور الیکشن میں حصہ لینے کی بھی اجازت مل گئی۔ایاز امیر کے بھی کاغذات منظور کرلیے گئے ۔چوہدری نثار کے کاغذات جس حلقہ سے مستر د ہوئے تھے اب منظور کرلئیے گئے اور کالم کے چھپنے تک کئی مسترد کاغذات کی اپیلوں پر فیصلہ ہوکر سب کو انتخاب لڑنے کی اجازت مل چکی ہوگئی انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اپیل کرنے کے بعد سارے صادق اور امین ہوگئے واہ رے سسٹم۔

مگر سوال جوں کا توں ہی ہے جس کا کوئی جواب نہیں مل پایا کہ یہ سب لوگ اتنے دودھ کے دُھلے اور اتنے پارسا تھے تو مسترد کیوں ہوئے اور اگر بحال ہوگئے تو کیا ریٹرننگ افسران کے خلاف کاروائی نہیں ہونی چاہیے کہ کیوں تم نے ان نیک اور پارسا لوگوں کے کاغذات کیوں مستردکئے؟۔ہم لوگ ان ہی سوالوں اور انہی باتوں میں مگن رہیں گے۔

یہ ٹوپی ڈرامہ دیکھتے رہیں گے۔اور ہمیشہ کی طرح یہ مُک مُکا اور لوٹ مار کرنے والی انتہائی منظم مافیا پھر ہمارے سر پر سوار ہوجائے گی۔اب ہمارے پاس سنہری موقع ہے اور اس قیمتی وقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے آپ کو اور اس سسٹم کو صحیح کرنے کیلئے عملی اقدامات خود کرنے ہونگے کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ سب کچھ بدلنا ہوگا۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی