گوادر کے باسیوں کا مستقبل تاریکی میں۔۔۔

Gwadar Pakistan

Gwadar Pakistan

گوادر 1958تک خلیجی ممالک عُمان کا حصہ رہا ہے بلوچستان کے دیگر علاقوں کے باسیوں سے گوادر کے باسی بہت ذیادہ خوشحال تھے گوادر کا گہرا سمندر قدرتی طور پر ایک پورٹ ہے گوادر بندر گاہ کی تعمیر سے قبل گوادر کے باسی مسقط ۔ ایران ۔دبئی۔ انڈیا سے سی ٹو سی تجارت کرتے تھے سابق فوجی صدر جنرل ایوب خان نے مسقط سے گوادر کو خرید کر پاکستان میں شامل کردیا 1964 میں گوادر کو حکومت نے بندررگاہ کے لیے موزو قرار دیا سابقہ ادوار میں میاں محمد نوازشریف نے گوادر پورٹ بنانے کی خواہش ظاہر کی مگر میاں نواز شریف کی حکومت کو 12اکتوبر1999 کوتختہ الٹ کر ختم کردیا گیا گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا معائدہ پاکستان اور چین کے درمیان ہوا گوادر بندر گاہ کی تعمیرات کا کام 36مہینوں میں مکمل ہوگیا بندر گاہ کا افتتاح 23مارچ 2002 کو سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشروف نے کیا بندر گاہ کی افتتاحی تقریب میں چین کے نائب وزیر اعظم بھی موجود تھے گوادر اپنی جغرافیائی محل وقوع اور پورٹ سٹی ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت حاصل کرچکا ہے

گوادر پورٹ سٹی بنتے ہی گوادر میں اراضیات کاریٹ بڑھنے لگا پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ہر فورم پر گوادر کی اہمیت اور افادیت کی بات کرتے ہے گوادر پورٹ میاں نواز شریف کا ایک خواب ہے میاں محمد نواز شریف گوادر کو پاکستان کا معاشی حب کہتے ہے لیکن با حیثیت گوادری مجھے نظر آرہا ہے کہ بیورو کریسی نہیں چاہتی گوادر ترقی کرے اور پورٹ آپریشنل ہو؟ بیورو کریسی گوادر بندرگاہ کے آپریشنل ہونے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ضلع گوادر کی بیوروکریسی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے جی پی اے کے موجودہ چیرمین کی نیت پر مجھے شک نہیں وہ مخلصانہ طور پر کام کر رہے ہے اُن کی خواہش ہے کہ پاکستان، بلوچستان، مکران اور گوادر کی ترقی گوادر پورٹ سے منسلک ہوہمسایہ دوست ملک چین گوادر کی ترقی کے لیے اربوں روپے لگانے کے لیے تیار ہے

Gwadar Port Pakistan

Gwadar Port Pakistan

جولائی 2014میں گوادر کے مقامی پائیو اسٹار ہوٹل میں گوادر چمبر آف کامرس کے ارکان اور دیگر بزنس مین سے چینی اعلی سطحی وفد چیرمین گوادر پورٹ میر دوستین خان جمالدینی کی سربرائی میں ملاقات کرتی ہے چینی وفد میں چائینہ لارجسٹ بنک آئی سی بی سی کے عہدیداراں بھی موجود ہوتے ہیں چینی وفد نے گوادر چمبر آف کامرس کو بتایا کہ چاہینہ گوادر میں بڑے پیمانے پر انویسمنٹ کرنا چاہتی ہے چاہینہ گوادر میں سیمنٹ فیکٹری، 100میگاواٹ بجلی گھر ، اسٹیل میل ، ماہی گیری کے شعبے میں انویسمنٹ کرے گی ہمسایہ ملک کی گوادر میں دلچسپی کو سہراتے ہیں گوادر کی ترقی سے پورا پاکستان ترقی کرے گامگر جب تک گوادر کے مقامی باشندوں کو ترقی میں شامل نہیں کیا جائے گا تو خطے میں ترقی لانا مشکل ترین امر ہوگا بیو روکریسی نہیں چاہتی کہ ضلع گوادر کے لو گوں کوترقی میں شامل کیا جائے گوادر میں جتنے وفاقی ،اور صوبائی اداروں میں بیٹھے سرکاری افسران گوادر کے مقامی باسیوں کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں جس کی ایک مثال وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ گوادر کے موقع پر گوادر سے منتخب ایم،پی،اے میر حمل کلمتی اور ا یم این اے سید عیسیٰ ٰ نوری کی وزیر اعظم پاکستان سے چائے پر گوادر سے متعلق اہم ملاقات متوقع تھی جسیے بیورو کریسی نے کینسل کر واہ دیا جس کے باعث گوادرکے سیاسی، وسماجی، لوگ بیوروں کریسی کے اس رویے کی وجہ سے سخت نالا ہیں گوادر کو پورٹ سٹی کا اعزاز ملنے کے بعد گوادر میں اراضی کی قیمتں آسمان سے باتے کرنے لگی حکومت گوادر کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے مختلف دعوے کر رہی ہے

حکومت گوادر کو سنگاپور اور دبئی کے طرز پر ترقی یافتہ بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے گوادر پورٹ فری پروسینگ زون کے لیے وفاقی حکومت نے وادی ڈھور میں2281 ایکڑ اراضی خریدی فری زون کے لیے مختص کردہ زمینوں پر 300 سے زائد خاندان بھی آباد ہے جنہیں اپنی جدی پشتی زمینوں سے بے دخل کردیا جائے گا فری زون کے لیے مختص کردہ زمنیوں میں سے 1627 ایکڑپبلک لینڈہے جنہیں حکومت کی جانب سے کمپلسیشن رقم دیا جائے گا کیا حکومت کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ پیسے دے کر شہریوں کو بے یارومدگار چوڑ کر حکومت وادی ڈھور میں مقیم 300 خاندانوں کے لئے ایک ماڈل ٹاون تعمیر کرے جہاں زندگی کے تمام تر بنیادی سہولت میسر ہوں تاکہ ان سے نسلوں سے قائم معاشرتی رشتے ہمیشہ قائم رہ سکے حکومت مسقتبل کے سنگارپوراور دبئی کے رہاہشوں کے لیے ماسٹر پلان کے تحت رہائشی اسکیمں بنائے گوادرکے 80 فیصد لو گوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری کی صنعت سے وابسطہ ہیں خاص طور پر ترقی یافتہ گوادر میں گوادر کے ماہی گیروں کے روز گار کا خیال رکھا جائے

Problems

Problems

گوادر کے باسیوں کے دوسر ا دردسر مسئلہ گوادر میں ہر دو سال بعد جنم لینے والا پانی کا بحران ہے 1994میںآنکڑہ ڈیم تعمیر کیا گیا ہیں آنکڑا ڈیم گوادر کی موجودہ آبادی کے لیے ناکافی ہیں 2004سے سوڈیم کا کام شروع کیا گیاسو ڈیم کی تخمینہ لاگت 4کروڑ تھی جو اب 51کروڑ تک جا پہنچی ہے 10سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ڈیم کی تعمیرات کا کام مکمل نہ ہوسکاگوادر بندر گاہ آپریشنل ہونے کے بعد ہزاروں لوگ روز گار کے سلسلے میں گوادر آئینگے جس سے پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہوگا اس بحران کی زد میں بھی گوادر کے قدیمی باشندے آئے گے حکومت میرانی ڈیم سے گوادر کو پانی سپلائی کرنے کے لیے منصوبہ شروع کرے گوادر کی ترقی سے نہ صرف بلوچستان ،پاکستان بلکہ وسطی اشیائی ممالکوں کو بھی فائدہ ہوگا ترقی یافتہ گوادر میں گوادر کے قدیمی باسیوں کو شامل کرنے لیے بہتر اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے امید ہے کہ حکومت صرف گوادر سے فائدہ نہیں لیگی بلکہ گوادر کے عظیم اور قدیم باسیوں کے بہتر مستقبل کے لئے بھی اقدمات کرے گی جس سے گوادر کے باسی مستقبل کے دبئی اور سنگاپور کی ترقی میں بہتر طور پر شامل ہوسکے گے ۔

Adum Qadir

Adum Qadir

تحریر ۔۔۔آدم قادر بخش