جی 20 اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ نے طالبان کے حوالے سے کیا کہا؟

Jaishankar

Jaishankar

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیر خارجہ نے جی 20 میٹنگ میں افغانستان اور ہند بحرالکاہل خطے سمیت کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ادھر امریکا نے ہند بحرالکاہل کی سکیورٹی سے متعلق اپنے نئے معاہدے میں بھارتی شمولیت کو مسترد کر دیا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں جی 20 کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں کئی اہم امور پر بات کی تاہم ان کی توجہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اور طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر ہی مرکوز تھی۔

طالبان پر بھارتی موقف
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جی 20 وزراء خارجہ کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا،”طالبان نے افغان سرزمین کو کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔‘‘

اس میٹنگ کے حوالے سے بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی ٹویٹس میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا،”دنیا توسیعی بنیاد پر ایک شمولیاتی عمل کی توقع رکھتی ہے جس میں افغان معاشرے کے تمام طبقات کو نمائندگی حاصل ہو۔‘‘

ان کا کہنا تھا،” افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2593 ہمارے نقطہ نظر کی رہنما ہونی چاہیے، جو عالمی جذبات کی عکاس ہے۔ جہاں تک بھارتی تعلقات کی بات ہے تو یہ افغان عوام کے ساتھ اس کی تاریخی دوستی کی بنیاد پر منحصر ہو گی۔”

بھارت افغانستان کی سابقہ عبدالغنی حکومت کا حامی تھا اور اس کے ساتھ اس کے تعلقات بھی بہتر تھے۔ تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی صورت حال تبدیل ہو گئی اور اب اسے مختلف طرح کے خدشات لاحق ہیں۔ بھارت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بھی کوشش میں ہے۔

مودی کی امریکی قیادت سے ملاقاتیں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سن 2014 میں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکا کے ساتویں دورے پر ہیں۔ وہ 23 ستمبر جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ بھارتی خارجہ سکریٹری کے ایک بیان کے مطابق اس ملاقات کے دوران دونوں رہنما باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کریں گے۔

امریکی حکام کے مطابق صدر جو بائیڈن اور کمالہ ہیرس کی ملاقات کے دوران ہی امریکا بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق بھی بات چیت کرے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن 24 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں مودی کی میزبانی کریں گے اور پھر اسی دن وہ کواڈ کے رہنماؤں کو بھی خوش آمدید کہیں گے۔ اس ملاقات کے دوران نریندر مودی کی جاپان اور آسٹریلیا کے وزراء اعظم سے بھی ملاقات ہو گی۔

واضح رہے کہ ہند بحرالکاہل اور ایشیا میں دیگر علاقائی امور سے نمٹنے کے لیے امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان نے چار ممالک پر مشتمل کواڈ کے نام سے ایک مشترکہ گروپ تشکیل دیا ہے۔ اس گروپ کی اب تک ورچوئل میٹنگز ہوتی رہی ہیں اور اس طرح اس کے رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہو گی۔

ایک ایسے موقع پر جب کواڈ کی میٹنگ میں محض چند گھنٹے باقی بچے ہیں امریکا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہند بحرالکاہل کی سکیورٹی کی حوالے سے اس نے جو برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ سہ فریقی معاہدہ کیا ہے اس میں بھارت کو شامل نہیں کیا جائے گا۔

چند روز قبل ہی امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے ہند بحرالکاہل کی سکیورٹی کے حوالے AUKUS سے اے یو کے یو ایس کے نام سے ایک نیا سہ ملکی معاہدہ کیا ہے تاہم خطے کے پڑوسی ملک بھارت اور جاپان کو اس سے الگ رکھا گیا ہے۔ فرانس کو بھی اس سے الگ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے صدر ایمانوئل ماکروں کافی ناراض ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر بھارت اور جاپان جیسے ممالک کو اس سے الگ کیوں رکھا گیا اور کیا مستقبل میں انہیں بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ خود بھارتی مبصر بھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا خطے میں بھارت کے لیے بھی کوئی کردار بچا ہے یا نہیں؟

اس حوالے سے جب وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا،”گزشتہ ہفتے اے یو کے یو ایس، کا جب اعلان کیا گیا تو وہ صرف اشارے کے لیے نہیں تھا، اور میرا خیال ہے کہ صدر بائیڈن نے فرانس کے صدر سے بھی اپنے پیغام میں یہی بات کہی ہے کہ کوئی اور نہیں ہے جو ہند بحرالکاہل کے سکیورٹی معاہدے میں شامل ہو۔‘‘

پندرہ ستمبر کو امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے واشنگٹن میں مشترکہ طور پر اس معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد خطے میں اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ معاہدے کے مطابق آسٹریلیا کو پہلی بار جوہری آبدوز مہیا کی جائے گی۔

جوبیس ستمبر کو کواڈ کانفرنس میں شرکت کے بعد مودی واشنگٹن سے نیو یارک روانہ ہو جائیں گے، جہاں وہ پچیس ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔