جرمن الیکشن ایگزٹ پولز، سی ڈی یو کی معمولی برتری

German Elections

German Elections

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن انتخابات کے ایگزٹ پولز کے مطابق بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹی سی پی ڈی کو انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد پر معمولی سی برتری حاصل ہے۔ تاہم حکومت سازی کے لیے اسے اتحادی پارٹیوں کی ضرورت ہو گی۔

جرمن الیکشن کے ایگزٹ پولز کے مطابق حکمران سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور باویریا میں اس کی ہم خیال کرسچن سوشل یونین کو مجموعی طور 24.3 فیصد ووٹ ملے جبکہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی25.9 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

ان ابتدائی ایگزٹ پولز کے مطابق گرین پارٹی کو 14.5 فیصد جبکہ متبادل برائے جرمنی اے ایف ڈی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کو بالترتیب 10.5 اور 11.5 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ڈی لنکے پارٹی پارلیمان میں پہنچنے کے لیے درکار کم از کم پانچ فیصد ووٹ ہی حاصل کر سکی ہے۔ ان ابتدائی نتائج کے مطابق دیگر چھوٹی پارٹیوں کو تقریبا آٹھ فیصد ووٹ ملے ہیں۔

نئی حکومت کی تشکیل اور چانسلر کے چناؤ کے عمل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

جرمن الیکشن کے ابتدائی نتائج تو سامنے آ گئے ہیں لیکن نئی حکومت کی تشکیل اور نئے چانسلر کے انتخاب کے عمل میں وقت لگے گا۔ اس وقت تک انگیلا میرکل قائم مقام چانسلر رہیں گی۔

جرمن الیکٹورل سسٹم کے تحت عمومی طور پر مخلوط حکومت سازی ہی ممکن ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اکثریتی حکمرانی نظام کے ساتھ ساتھ تمام پارٹیوں کی متناسب نمائندگی کو یقینی بنانا ہے۔

اس کی وضاحت کچھ ایسے کی جا سکتی ہے کہ جرمنی میں ہر ووٹر دو ووٹ ڈالتا ہے۔ اگرچہ بیلٹ پیپر ایک ہی ہوتا ہے تاہم اس میں دو خانوں پر نشان لگانا ہوتا ہے۔ ایک خانہ کسی حلقے سے کسی امیدوار کا براہ راست انتخاب ممکن بناتا ہے جبکہ دوسرا خانہ پارٹی کے انتخاب کے لیے ہوتا ہے۔

جو پارٹی مجموعی طور پر پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرتی ہے، اسے بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں تک رسائی مل جاتی ہے۔

الیکشن میں براہ راست اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار بہرحال سیدھا ایوان زیریں کا رکن بن جاتا ہے۔ پارٹی ووٹ کے تناسب سے 598 نشستوں والی ایوان زیریں میں نشستوں کی مجموعی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

جرمنی میں الیکشن کے بعد حکومت سازی کا عمل طویل ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھار تو اس مرحلے میں کئی ماہ بھی لگ جاتے ہیں۔

گزشتہ الیکشن یعنی سن دو ہزار سترہ کے الیکشن کے بعد حکومت سازی کے لیے ہونے والا مذاکراتی عمل جرمنی کی تاریخ کا طویل ترین دورانیہ تھا۔ تب ایسا بھی معلوم ہوا تھا کہ شائد کوئی حکومت سازی نہ کر سکے اور الیکشن دوبارہ منعقد کرائے جائیں۔

گزشتہ الیکشن میں اگرچہ انگیلا میرکل کے سیاسی اتحاد نے اکثریت حاصل کی تھی تاہم حکومت سازی کے لیے اسے مزید اتحادیوں کی ضرورت تھی۔ کئی ماہ کے مذاکراتی عمل کے بعد فری ڈٰیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی نے میرکل کے سیاسی اتحاد کے ساتھ حکومت سازی کرنے کا فیصلہ ترک کر دیا تھا۔

پھر ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کی خاطر کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور باویریا میں اس کی ہم خیال کرسچن سوشل یونین نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ حکومت سازی کی۔ سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد میں انگیلا میرکل کی سربراہی میں قدامت پسندوں کا اتحاد گزشتہ آٹھ برسوں سے جرمنی میں حکومت کرتا رہا۔

اس بار کے الیکشن کے نتائج کے مطابق حکومت سازی کا عمل زیادہ طویل نہیں ہو گا۔ حکومت سازی کے لیے مذاکراتی عمل کامیاب ہونے کے بعد ہر سیاسی اتحاد چانسلر شپ کے لیے اپنا اپنا امیدوار نامزد کرے گا۔

حکومت تشکیل دے دینے کے بعد جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر جرمن پارلیمان سے کہیں گے کہ وہ نئے چانسلر کے لیے ووٹنگ کریں۔ نئی تشکیل دی جانے والی حکومت کے تمام قانون ساز نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یوں نئے چانسلر کا چناؤ کیا جائے گا۔

جرمن پارلیمان میں چانسلر کے انتخاب کے اسے قطعی اکثریت ملنا لازمی ہے۔ ابھی تک چانسلر کے لیے نامزد سبھی امیداروں نے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں ہی کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ ان میں انگیلا میرکل کے انتخابی مراحل بھی شامل ہیں۔

جرمنی میں کوئی بھی اہل ووٹر الیکشن نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اس عمل کی خاطر ووٹر کو الیکشن کے انعقاد کے دو ماہ مکمل ہونے سے قبل الیکشن کمیشن کو ایک آفیشل خط تحریر کرنا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن تمام شکایات کنندگان کو فردا فردا جواب دینے کا پابند ہوتا ہے۔ جواب دینے کے اس عمل اور کارروائی میں ایک سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔

کسی حلقے کے الیکشن کے نتیجے کو کالعدم قرار دینے کے لیے دو امور لازمی ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ الیکٹورل غلطی ہوئی ہو، جس کے نتیجے میں وفاقی الیکشن ایکٹ یا وفاقی الیکشن کوڈ کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ دوسرا یہ کہ کسی حلقے میں ہوئے الیکشن میں ہونے والی الیکٹورل غلطی کی وجہ سے جرمن ایوان زیریں میں پارٹیوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کا توازن بگڑا ہو۔

اگر کوئی ووٹر اس عمل سے مطئمن نہیں تو وہ الیکشن میں ہوئی کسی بے ضابطگی یا الیکٹورل غلطی کو وفاقی آئینی عدالت میں بھی چیلنج کر سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمن الیکشن کی تاریخ میں ابھی تک ایسا ایک مرتبہ بھی نہیں ہوا کہ کسی الیکشن کا نتیجہ کالعدم قرار دیا گیا ہو۔