نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے

 Anwar Jamal Farooqi

Anwar Jamal Farooqi

نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے
ہم خانہ بدوش لوگ تھے دریوزہ گر رہے

الجھے ہیں کچھ اس طرح غم روزگار میں
گردش ماہ وسال سے بھی بے خبر رہے

ہر شام کے نصیب میں اک سفاک رات ہے
ہر شام یہ سوچ کر ہم اپنے گھر رہے

پچھلے برس سائبان صرصر تھی لے اڑی
اب کی برس شائید نا دیوار اور در رہے

کبھی ہنسنا کبھی رونا کبھی چپ چاپ سو جانا
حیراں ہمارے احوال پر سب نوحہ گر رہے

تھک کر کبھو نہ بیٹھے کسی بھی چھاؤں میں
گو رستے میں ہاتھ ہلاتےکئی شجر رہے

کس کس کا گلہ کریں انور جمال ہم
خواہش کے سارے پیڑ ہی جب بے ثمر رہے

تحریر : انور جمال فاروقی