آج کا گوادر

Gwadar

Gwadar

تحریر : سید کمال حسین شاہ

ایسی بندرگاہ جو کسٹم کے قواعد و ضوابط اور دوسرے محصولات سے آزاد ہو.محصول صرف اس وقت لگایا جاتا ہے جب اشیاء آزاد بندرگاہ سے ملک کے اندرونی حصوں میں منتقل کی جاتی ہیں سولہویں صدی میں آزاد بندرگاہوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ یورپ میں کوپن ہیگن، ڈنیرک اور ڈنکرک اور مشرق بعید میں ہانگ کانگ اور سنگاپور 1939ء تک آزاد بندرگاہیں تھیں۔ 1937ء میں امریکا کی پہلی آزاد بندرگاہ سٹیپلیٹن کے مقام پر قائم کی گئی۔ جدید آزاد بندرگاہوں میں دبئی اور گوادر کی بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔گوادر پاکستان اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع صوبہ بلوچستان کا شہر جو اپنے شاندار محل وقوع اور زیر تعمیر جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر معروف ہے۔ آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔گوادر کا موجودہ شہر ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نصف لاکھ جبکہ آزاد۔ اس شہر کو سمندر نے تین طرف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک گوادر کے معنی “ہوا کا دروازہ” ہے.

گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی گرم ہے جو دنیا کہ بہت ہی کم بندرگاہوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رہتے ہیں یوں تجارت اور مختلف اشیاء کو براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس کے برعکس جو بندرگاہیں ٹھنڈے پانی پر واقع ہیں ان کے ذریعے تجارت کرنا مشکل ہوتاہے بلکہ مختلف موسموں میں تو ناممکن ہوجاتا ہے۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی گوادر میں جدید بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بن گیا تھا مگرفنڈ کی کمی اور دیگر ملکی اور بین الااقوامی معاملات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ اس کی تعمیر کاکام شروع نہ ہو سکا۔بندر گاہ کی گہرائی 14.5 میٹر ہوگی یہ ایک بڑی ،وسیع اور محفوظ بندر گاہ ہے۔بندر گاہ چلانے کے لیے تمام بنیادی سامان اور آلات بھی لگ چکے ہیںگوادر شہر ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر رہا ہے اور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن رہا ہے . یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیاء کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گی جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا.۔گوادر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اب لوگوں کی توجہ اس طرف ہو چکی ہے چنانچہ ایسے میں بے شمار فراڈیوں اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی سکیموں اور دیگر کالونیوں کی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے کیونکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر کی اصل صورت حال سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے ان کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجھی سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ یہاں ایسی سکیمیں جن کو گوادر دویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی بھی جاری کر رکھی ہیں. گوادر دویلپمنٹ اتھارٹی سے انفارمیشن لے کر جگہ لیے .

بلوچستان کے ضلع گوادر میں زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق گوادر میں ضلع بھر کی زمینوں کا ریکارڈ 6 ماہ میں کمپیوٹرائز کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، کمپیوٹرائزیشن کے اس عمل سے لینڈ ریکارڈ کی مینجمنٹ میں شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے گا۔اب تک جی ڈی اے نے قانون کے مطابق رہائشی، انڈسٹریل اور کمرشل نوعیت کی30 سے زائد سکیموں کے این او سی جاری کیے ہیں جبکہ سرکاری سکیمیں اس وقت 2ہیں .جی ڈی اے کے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہے اور شہر کی بڑی سڑکیں 200فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہو نگی جبکہ ان سڑکوں کے دونوں جانب 2/2لین کی سروس روڈ ہو گی اور شہر کے مین روڈ کا نام جناح ایونیو رکھا گیا ہے جو تقریباً14کلو میٹر طویل ہے اور اسی طرح بلوچستان براڈوے بھی200فٹ چوڑی اور سروس روڈ پر مشتمل ہو گی اور اس کی لمبائی تقریباً60کلو میٹر ہے جبکہ سمندر کے ساتھ ساتھ تقریباً24کلو میٹر سڑک تعمیر ہو گی اور جو چوڑائی کے لحاظ سے جناح ایونیو کی ماند ہو گی۔

یہ سڑکیں نہ صرف ایشیاء بلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہو نگی۔جی ڈی اے نے این او سی جاری کرتے وقت پرائیویٹ اداروں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی سکیموں میں پینے کے پانی کا انتظام کریں گے اور سمندر کا پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے ں گے جبکہ سیوریج کے پانی کے نکاس کا بھی ایسا انتطام کیا جا رہا ہے کہ گندا پانی سمندر میں شامل ہو کر اسے آلودہ نہ کرے اور کراچی جیسی صورت حال پیدا نہ ہو اور اس مقصد کے لیے ہر پرائیویٹ سکیم کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے ٹریٹمنٹ اور ری سائیکلنگ پلانٹ لگائیں اور اس پانی کو گرین بیلٹ اور پارکوں میں استعمال کیا جائے۔گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ ٹیکس فری زون شہر ہو گا۔پاکستان گوادر بندرگاہ کی وجہ سے خطے میں سب ممالک سے زیادہ اہم جیوسٹریٹجک پوزیشن کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیائ ، مغربی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر ساحلی تجارت جیسی تجارتی اور صنعتی سہولتوں سے اس خطے کے تمام ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، قطر، چین میں معاشی اور صنعتیں ترقیوں کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

گوادر بندرگاہ کے ذریعے دنیا کے ممالک میں تجارتی لین دین شروع ہو جائے اور مختلف ممالک اپنی اپنی سکہ رائج القت (کرنسیوں) میں لین دین (تجارت) شروع کریں گے تو پاکستان میں ڈالر کی قیمت کافی حد تک کم ہو جائیگی اور اس کے علاوہ بلوچستان جو پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے، میں بہت سارے مقامی افراد کو روز گار مل جائے گا۔ نہ صرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کو بھی بہترین مواقع فراہم ہوں گے۔اس بندرگاہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک مستفید ہوسکتے ہیں جن میں چین سرفہرست ہے، چین کے دفاعی، تجارتی، علاقائی، مفادات کے لیے گوادر بندرگاہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔گوادر بندرگاہ کا ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر امریکا ابنائے ملاکہ کو بند بھی کر دے توپاکستان اور چین کے لیے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا رہے گا۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے لیے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کر سکتا ہے.چین کی حکومت کی جانب سے حکومت نے گوادر ائر پورٹ کیلئے 259 ملین ڈالرز کی گرانٹ کا اعلان کیا۔ سول ایوی ایوشن اتھارٹی نے 2016 میں ائر پورٹ کیلئے مختص جگہ پر خاردار تار لگادیے.یہ ائر پورٹ پاکستان کا سب سے بڑا اور جدید ترین ائرپورٹ ہوگا جس کا رقبہ 4 ہزار 800 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ منصوبہ تقریبا 3 سال میں مکمل کیا جائے گایہ ایئرپورٹ پاکستان کا دوسرا گرین فیلڈ ایئرپورٹ ہو گا یعنی اس کو بالکل نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا۔

پاکستان کا پہلا گرین فیلڈ ایئرپورٹ اسلام آباد کا نیا بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔دورہ ادر وزیراعظم ۔آئی ایس پی آر کے مطابق وزیراعظم نے پاک فوج اور بلوچستان حکومت کے جوائنٹ وینچر کے تحت میگا پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ کارڈیک سینٹر’ کوئٹہ ڑوب این 50 موٹروے منصوبوں میں شامل ہیں۔ کوئٹہ ڑوب موٹروے سے سماجی اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ کوئٹہ سے ڈی آئی خان کا سفر 12 گھنٹے سے کم ہوکر 4 گھنٹے ہو جائے گا۔ شاہراہ کی تعمیر سے مقامی تاجروں کو مرکزی منڈیوں تک رسائی میں آسانی ہوگی۔ این 50 کی تعمیر سے خیبر پختونخوا کی اجناس جلدی کراچی پورٹ تک پہنچ سکیں گی۔ این 50 موٹروے مغربی سرحد کے متوازی علاقائی راہداری ہوگی۔ اس شاہراہ کے ذریعے افغانستان اور ایران کو پاکستان سے ملایا جائے گا۔ کارڈیک سینٹر کوئٹہ میں عوام کو جدید سہولیات میسر ہونگی،گوادر کو بجلی کی نیشنل گرڈ سے جوڑا جائیگا، حکومت گوادر میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے کی تیاری کر رہے ہیں ،پانی کی ری سائیکلنگ کیلئے بھی پلانٹ لگائیں گے.۔ گوادر اور کراچی کے درمیان فیری سروس بھی شروع کی جائیگی. گوادر سے کوئٹہ ٹرین سروس شروع ہو گی گوادر سٹی ماسٹر پلان. چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت گوادر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا جائے گا۔ سی پیک سیکرٹریٹ حکام کے مطابق گوادر تجارت اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز بننے جا رہا ہے.گوادر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید بندرگاہ بنایا جائے گا۔ گوادر تجارت اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے علاقائی مرکز بننے جا رہا ہے۔ گوادر ماسٹر سٹی پلان کو جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی.وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ گوادر کو ایک جدید اور سمارٹ پورٹ سٹی بنایا جائے گا.ساحلی شہر کو تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے علاقائی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے ایک مربوط پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ گوادر کی ترقی سے مقامی آبادی اور بلوچستان کی عوام کی سماجی و اقتصادی زندگی میں بہتری آئے گی.گوادر سٹی ماسٹر پلان ساحلی شہر کی پائیدار ترقی کو حاصل کرنے کی طرف ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے .

گوادر کو دنیا کا بہترین شہر بنانے کیلئے ماسٹر پلان تیار ہو چکا ہے جبکہ ا سمارٹ سٹی بنانے کے منصوبے پر اسٹڈی جاری ہے ، رواں سال کے آخر تک گوادر سے کوئٹہ اور گوادر سے رتو ڈیرو تک شاہراہ کی تعمیر مکمل ہو جائے گی ، گوادر بندر گاہ پر کارگو اور کنٹینر کے ساتھ ساتھ آئل گیس ، کیمیکل ، لوہے اور ایل این جی کے ٹرمینل بنانا بھی ماسٹر پلان کا حصہ ہے ، گوادر کو پانی کی فراہمی کیلئے دو ڈیموں کی تعمیر جاری ہے جن کے ذریعے گوادر کو ساڑھے 7 ملین گیلن پانی فراہم کیا جائے گا۔تفصیلات کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان کیلئے گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے.۔ گوادر کو سڑک کے ذریعے چین اور وسط ایشیائی ممالک سے بھی منسلک کیا جا رہا ہے۔ بڑے بحری راستے شاندار محل وقوع اور زیر تعمیر بندرگاہ کے باعث گوادر عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ گوادر بندر گاہ گہرے اور گرم پانی میں ہونے کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہے جو خلیجی ریاستوں سے تیل کی برآمدات کا واحد راستہ ہے۔ دنیا بھر میں 40 فیصد تیل کی ترسیل اسے راستے سے ہوتی ہے۔ بندرگاہ پر صرف کارگو اور کنٹینر کے ٹرمینل ہی نہ ہوں گے بلکہ آئل ، گیس ،کیمیکل ، آئرن اور ایل این جی کے ٹرمینلز بھی ماسٹر پلان کا حصہ ہیں۔ اقتصادی راہداری منصوبوں میں مقامی آبادی کے بھرپور کردار اور فلاح و بہبود کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اقتصادی راہداری کے ذریعے گوادر کی مقامی معیشت کو ترقی دینا اولین ترجیح ہے .منصوبے کے تحت شہر کو تمام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ پانی اوربجلی شہر کے دو بڑے مسئلے ہیں جن کے خاتمے کیلئے حکام پر عزم ہیں.گوادر کے قریب دو ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں جہاں سے پائپ لائن کے ذریعے گوادر کا ساڑھے سات ملین گیلن پانی فراہم کیا جائے گا۔

Syed Kamal Hussain Shah

Syed Kamal Hussain Shah

تحریر : سید کمال حسین شاہ