ان کے سر پہ ہاتھ رکھیں۔۔!

Allha

Allha

رب باری تعالی نے رمضان کی نعمت ایک مرتبہ پھر سے ہمیں عطا فرمائی ہے اس مقدس و بابرکت مہینے کی برکتیں سمیٹنے کا موقع دیا ہے۔ بلاشبہ رمضان کریم اللہ تعالی کے انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ قرآن جیسی عالمگیر کتاب کی تکمیل بھی اسی مہینے میں ہوئی تھی اس لحاظ سے یہ مہینہ کیا مقام رکھتا ہے۔اس مہینے میں کتنا زبردست موقع ملتا ہے ہمیں کہ زیادہ سے زیادہ برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا۔ لیکن ہم بے حس اور بے اثر ہوتے جا رہے ہیں ہم اپنی روش چھوڑنے کے لئے تیار ہی نہیں، کہنے کو تو ہم روزہ رکھ لیتے ہیں اور نماز کا اہتمام بھی شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن! کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم نے روزہ رکھ کر کتنے جھوٹ بولے ہم نے روزہ کی حالت میں کتنے لوگوں کو ایذا اور تکلیف پہنچائی۔ کیا ہم نے اپنے نفس کے ساتھ پلنے والے شیطان کو جکڑا؟؟ شاید ہم اس ماہ کا احترام کرنا بھی بھول چکے ہیں۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

پھر بھی کتنے بد قسمت ہیں ہم لوگ! باوجود اس کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم جہنم کے بند دروازوں کی طرف جائیں یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہمیں جنت کے کھلے دروازے نطر نہیں آرہے معمول کا بہانہ ہمارے پاس ہے فلاں کام شیطان کے بہکاوے کی وجہ سے ہو گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے رمضان میں تو شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر یہ کون سے شیاطین ہیں جو ہمارے سے گناہ کرواتے ہیں تو بات سیدھی سی ہے وہ شیطان تو جکڑے جاتے ہیں لیکن ہمارے اندر کا شیطان جو خود ساختہ ہوتا ہے اسے ہم آزاد کر دیتے ہیں۔ قارئین کرام! ہمارے ہاں سب سے زیادہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی لعنت اسی مقدس ماہ میں فروغ پاتی ہے۔ کیوں نا !ہم اس مقدس ماہ میں یہ عہد کر لیں کہ ہم نے اپنے نفس کا احتساب کرنا ہے۔ اگر آج پھر سے ہمیں رمضان کریم کی نعمت میسر ہے تو ہم نے اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھانا اس ماہ میں کی جانے والی چھوٹی چھوٹی نیکیاں کیا درجہ اختیار کر جاتی ہیں۔

Ramadan Kareem

Ramadan Kareem

چند دن پہلے قلم کار حضرات کے لئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی جانب سے ایک خوبصورت نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں محترم ارشاد احمد عارف، عطاالرحمن، رئوف طاہر، سجاد میر، سعد اللہ شاہ، عباس تابش، ڈاکٹر امان اللہ ،رانا طاہر،محترمہ عمرانہ مشتاق، پروفیسر مظہر حسین، پروفیسر رفعت مظہر، فضل حسین اعوان، نور الھدی اور راقم الحروف سمیت بیشتر قلم کار شریک تھے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ہیڈ آفس میں مدعو تھے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ذمہ داران نے ادارے کے تعلیمی پراجیکٹس سے آگاہی کیلئے ڈاکومنٹری دکھائی تو احساس ہوا کہ تعلیمی انحطاط کے شکار پاکستان میں جب تک ایسے ادارے موجود ہیں، قومی ترقی کی دوڑ یقیناً جاری رہے گی۔

اسی نشست کی بدولت ہمیں معلوم ہوا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ صوبہ پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے پسماندہ دیہی اضلاع میں 325 سکولوں کے ذریعے تعلیمی پسماندگی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے تعلیم کو 48 ہزار سے زائد دیہی بچوں کی دہلیز تک پہنچا رہا ہے۔ جبکہ کسی سرکاری تعاون کے بغیر 24 ہزار سے زائد بچوں کی تعلیمی کفالت کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہے اور دیہی علاقوں کے تعلیمی سہولیات سے محروم بچے جن کی آنکھوں میں سوائے دکھوں اور محرومیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی بدولت اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سہولیات مہیاہونے کے بعد اب ان کی زندگیوں میں تبدیلی آئی اور ان کی آنکھیں اپنے روشن مستقبل کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنے لگی ہیں، تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ اتنا بڑا نیٹ ورک کسی سرپرستی کے بغیر کیسے چل رہا ہے۔

اس نشست کی میزبانی سید وقاص انجم جعفری صاحب کر رہے تھے جو مہمانوں کو ٹرسٹ کے اخراجات اور نیٹ ورک سے آگاہ کر رہے تھے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے مخیر حضرات کے تعاون اور لوگوں کی جانب سے آنے والے زکوٰة و صدقات کی مدد سے وہ یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

اس نشست میں دکھائی گئی ڈاکو منٹری اور غزالی ایجوکیشن ٹرست کے ذمہ داران کے بتائے گئے خوبصورت تجربات اور مشاہدات سن کر روح کو عجیب سا اطمینان حاصل ہوا اور دل کو تسلی بھی ہوئی کہ ابھی بھی کچھ لوگ موجود ہیں جو آگے بڑھ کر ان بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ رہے ہیں اور دور دراز علاقوں میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر ہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کی بے لوث خدمت قبول کرے یہ بڑی ہمت والا کام ہے۔ اہل ثروت اور مخیر حضرات سے اپیل ہے آگے بڑھ کر ان لوگوں کی مدد کریں جو اس نفسا نفسی کے دور میں یہ عظیم فریضہ سر انجام دے رہے ہیں آگے بڑھیں اور ان بچوں کے سر پر ہاتھ رکھیں۔

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ