صحت مند ماحول روشن مستقبل کا ضامن

Healthy Environment

Healthy Environment

تحریر: سونیا چوہدری
جس بے راہ روی پر گامزن معاشرے میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیںاور جس ابلیسی ماحول میں ہمارے بچے پرورش پارہے ہیں اسکے بعد ہم باآسانی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے۔ اسی بے ہنگم ماحول سے تنگ آکر شاید والدین نے اپنے لخت جگروں کو چند ہزار روپوں کی قیمت میں بیچنے کہ کٹھن فیصلے کر لیے ہیں۔ نوکریاں نہ ملنے پر جوتیاں چٹخار کر تھک کہ بیٹھنے والے نوجوانوں نے بری سوسائٹی کا رخ کر نا شروع کردیا ہے۔ پرسکون زندگی بسر کرنے کی خواہش کو دل میں ہی دباتے ہوے لوگوں نے حرام موت مرنے کو ترجیح دینا شروع کردیا ہے،گھر سے نکلتے وقت اب یہ احساس رہتا کہ گھر واپسی ہوگی بھی کہ نہیں۔

ہر انسان ظلم کا شکار بنا بیٹھا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول مبارک ہے کہ ”کفر کے ماحول میں تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ظلم کہ ماحول میں نہیں“۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے غیرت و ہمت سے عاری ہوتے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی اب غیرت مندوں کی کمی ہونے لگی ہے۔ اب ایک بڑا سوال ہر کسی کو کھٹکتا رہتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت بہتر کیسے کر سکیں گے؟ والدین کے طور طریقے اور اساتذہ کا دیا ہوا سبق کتنا بھی عمدہ ہو،مگر جو سبق ہمارا معاشرہ ہمارے بچوں کو سیکھاتا ہے اس کا اثر دیگر اسباق پر حاوی ہو جاتا ہے۔

Training

Training

بچوں کی تربیت کا ایک بڑا عنصر ہمارے ماحول سے جڑا ہوا ہے۔ یاد رکھیں آج کے بچوں کی تربیت مستقبل کے معماروں کو جنم دے رہی ہے۔ یہ وہ معمارہیں جو آج ناتواں درخت ہیں مگر کل کو یہ تن آور درخت بن جائیں گے اس لئے ضروری ہے ایک اچھے استقبال کے لئے ابھی سے اس نرسری کی ٓبیاری پر توجہ دی جائے۔ یہ نرسری جب ایک جاندار اور روشن مستقبل کی باگ ڈور سنبھالے گی تو تب ہمارے دیے ہوئے ماحول کا اثر نمایاں ہو گا وہ اچھا ہوا تو ہم روشن مستقبل دیکھیں گے ورنہ موجودہ دور اس سے شاید کہیں اچھا تصور کیا جائے گا۔

Hope

Hope

اس وقت ملکی حالات ناجانے کب بہتر ہونگے اور ہمیں شریفانہ اور پرسکون ماحول مہیا ہوگا، امید پہ دنیا قائم ہے لیکن اتنی لمبی امیدوں کہ بعد بھی اگر ہربار شکست ہی نصیب میں آئے تو امیدیں بھی مایوسیوں میں بدلنے لگتی ہیںاور ہاتھ پھر خالی کہ خالی ہی رہ جاتے ہیں۔ اسی لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے بہتر اور ہر گندگی سے پاک و صاف صحت مند ماحول کو ترویج دینے میں قدم بڑھائیں ۔ ایک قدم تو شرط ہے۔

تحریر: سونیا چوہدری