جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

Subcontinent

Subcontinent

برصغیر کی تقسیم کے فوراََ بعد بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے لیئے جو مسائل پیدا کیئے ان میں سرِفہرست کشمیر کا تنازعہ ہے۔ 3 جون1947 کے پلان میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ برصغیر برطانوی اقتدار کے خاتمہ کے بعد ہندوستان پر تاج برطانیہ کی بالادستی بھی ختم کر دی جائے گی اور وہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے یا خود مختار رہنے کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگی بہر کیف لارڈ مونٹ بیٹن نے 20 جولائی 1947 کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے جغرافیائی حالات اپنی آبادی کی ہیئت اور اپنے عوام کی امنگوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں ۔ لیکن جوناگڑھ، حیدرآباد، اور کشمیر کا معاملہ الجھ گیا۔ ان تینوں ریاستوں میں سے اول ذکردو ریاستوں پر تو بھارت نے فوج کشی کر کے ان ریاستوں کے حکمرانوں یا عوام کی مرضی کے برعکس ان پر قبضہ کر لیا اور اقوام متحدہ بھی ان ریاستوں کی عوام کو انکا پیدائشی حق خود اختیاری دلانے میں ناکام رہی۔ البتہ ریاست جموں و کشمیر کا معاملہ 67 برس سے تصیغہ طلب ہے اور برصغیر میں کشیدگی و تلخی کا موجب بنا ہوا ہے۔

ریاست جموں کشمیر کا رقبہ84471 مربع میل ہے اس کے شمال میں نسکیانگ اور افغانستان کی وہ چھوٹی سی پٹی ہے جس کے پار سویٹ یونین ہے اس کے مغرب اور جنوب مغرب میں پاکستان واقع ہے جنوب مشرق میں بھارت ہے اور شمال میں تبت ہے ۔پاکستان کے تین بڑے دریا سندھ ۔جہلم اور چناب کشمیر سے ہی نکلتے ہیں ۔ کشمیر کی 902 میل لمبی سرحد پاکستان کے ساتھ ملحق ہے بھارت کے ساتھ اس کی سرحد 317میل لمبی ہے برصغیر کی آزادی کے وقت صرف دو سڑکیں کشمیر کو باقی دنیا سے ملاتی تھیں ۔ یہ دونوں پاکستان کی طرف سے کشمیر تک جاتیں تھیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے ملانے کے لیئے گودداسپور سے جموں تک ایک سڑک بعد میں تعمیر کی گئی۔ دشوار گزار کہستانی علاقہ ہونے کی وجہ سے کشمیر میں دریا سامانِ تجارت کی نقل و حمل کے حامل ہیں اور کشمیر کے تمام قدرتی ذرائع مواصلات پاکستان کی طرف آتے ہیں ۔ پاکستان اور کشمیر کے مابین ثقافتی روابط کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی کہ خود برصغیر کی تاریخ 1941 کی مردم شماری کے مطابق جو آزادی کے وقت مسلم اکثریت کے علاقوں کے تعین کی بنیاد بنی تھی کشمیر کی آبادی 40 لاکھ تھی اس میں سے 77 فیصد آبادی مسلمان تھی۔ کشمیر کے صوبہ یا وادی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 93 فیصد اورجموں میں 61 فیصد تھی ۔ گلگت کی ساری آبادی مسلمان تھی پاکستان اور کشمیریوں کے مابین شادیاں بڑی عام تھیں ۔ ان مفروضات کا مقصد یہ ہے کہ کشمیر جغرافیائی، ثقافتی، اقتصادی، مذہبی الغرض ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے۔ ریاست جموں کشمیر 1846میں معاہدہ امرتسر کے نتیجہ میں معرض ووجود میں آئی تھی اور اسے ایک ہندو ڈوگرہ سردار گلاب سنگھ کے ہاتھ ساڑھے سات لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا تھا۔ لارڈ لازنس(جس نے یہ ریاست گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کی تھی)اس سودے کے بارے میں لکھتا ہے۔

یہ انتظام بڑا ہی غیر منصفانہ تھا جس کے تحت کشمیر اور اس کے بدنصیب باشندے ان کے رائے معلوم کیئے بغیر اس طرح ایک ڈوگرہ راجپوت گلاب سنگھ کو منتقل کر دیئے گئے جیسے وہ لکڑی کے بہت بڑے شہتیر ہوں اس ڈوگرہ راجپوت اور کشمیریوں میں زندگی کی کوئی قدر بھی مشترک نہیں تھی۔”

برصغیر کی تقسیم کے وقت مہاراجہ پرتاب سنگھ کا جانشیں مہاراجہ سر ہری سنگھ ریاست کا حکمران تھا ان مہراجوں کا عہدے حکومت میں کشمیر کے لوگ ہمیشہ غربت اور افلاس اور جورواستبداد کا شکار رہے۔ اعلیٰ ملازمتیں صرف ڈوگروں اور ہندوئوں کے لیئے مخصوص تھیں مسلمان ہمیشہ ہندوئوں اور ڈوگروں کے رحم و کرم پر رہے ڈوگرہ راج اصل میں ظلم و استبداد کا دور تھا برصغیر کی آزادی کے وقت یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ریاست کے مسلمان اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کریں گے۔ مہاراجہ کی حکومت کیخلاف ایجی ٹیشن 1930 میں ہی شروع ہو گیا تھا ۔جب آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس معرض وجود میں آئی تھی ۔ مسلمانوں نے بنیادی سیاسی حقوق کا مطالبہ کیا تھا مہاراجہ نے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی مسلمانوں پر گولیاں برسائی گئی انہیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیئے پہنچے ان میں اکثر گولیوں کا نشانہ بنے یا گرفتار ہوئے یہ مہاراجہ کے خلاف مسلمانوں کا پہلا مظاہرہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے مسلمانوں کو بعض حقوق حاصل ہوئے۔ برصغیر کے تقسیم کے منصوبہ کا اعلان 3جون 1947 کو کیا گیا تھا۔ اس اعلان کے بعد کانگرس کے صدر اچاربہ کریلانی نے کشمیر کا دورہ کیا اور مہاراجہ ہری سنگھ کو یہ تجویز پیش کی کہ ریاست ان کی نجی ملکیت ہے۔

Kashmir

Kashmir

ہندہ وہ سربراہ ریاست ہے جس میں کریلانی کے بعد پٹیالہ ، فرید کوٹ اور کپور قلعہ کے مہاراجوں نے بھی کشمیر کا دورہ کیا اور مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر آمادہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کی بعد میں گاندھی جی سرینگر گئے اور انہوں نے بھی مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت کے ساتھ الحاق کے بارے میں بات کی ان سرگرمیوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت ریاست کے بھارت کے ساتھ کوشاں تھی اس خیال کی تصدیق پنڈت نہرو کی 8 مارچ 1949 کو پارلیمنٹ میں اس تقریر سے بھی ہو جاتی ہے۔جس میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں جو اقدامات کیئے تھے انہیں گاندھی جی کی آشیر باد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت کشمیر حاصل کرنے پر تلی ہوئی تھی اور اس کے لیئے وہ پاکستان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا تہیہ کر چکی تھی ۔ پنڈت نہرو نے 26 ستمبر 1947 کو ایک بیان میں کہا ” اگر پاکستان اپنی غلطی(ریاست میں قبائلی بھیجنے کی غلطی) تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کرتا رہا اور اس (کی اہمیت) کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا تو بھارتی حکومت کو اس کے خلاف جنگ کرنا پڑے گی” ۔ مہاراجہ کشمیر نے ان حالات کے پیش نظر ریاست میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی غرض سے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ قائمہ (صورتحال جو کی توں برقرار رکھنے کا معاہدہ کر ے)کشمیر اور پاکستان کے مابین اس معاہدہ قائمہ کے مطابق 1 ۔ریاست کشمیر پاکستان کے سوا کسی ملک کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کر سکتی تھی۔ 2 ۔ مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پاکستان نے 15اگست1947 سے پہلے مسلم لیگی لیڈوروں نے مہاراجہ ہری سنگھ سے اپیل کہ مسلم آبادی کی جان و مال کی حفاظت کا انتظام کیا جائے لیکن مہاراجہ ٹس سے مس نہ ہوا اورمہاراجہ کی فوج اور مجاہدین آزادی کے درمیان کھلم کھلا جنگ شروع ہو گئی اور صرف 3 ماہ کے بعد مہاراجہ کو شکست ہوئی جوںجوں تقسیم برصغیر کی تاریخ قریب آرہی تھی پونچھ میں بالخوص جلسے جلوس ریلیاں اور مظاہرے شدت اختیار کرتے جارہے تھے اور کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھااور مارشل لاء بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔جلسوں پر گولیاں برسائی گئیں 27 اگست کو نیلابٹ میں ایک جلسہ پر فائرنگ کے بعد ایک نوجوان زمیندار عبدالقیوم نے اپنے دوستوں سمیت بغاوت کر دی ڈوگروں نے کئی دیہات نذر آتش کر دیئے تھے جہاں انہیں کسی ایک فرد یا ایک کنبہ کے بغاوت میں ملوث ہونے کا ذرا سا بھی شبہ ہوتا تھا۔

انگریزوں کی نگرانی میں دہلی اور کلکتہ سے شائع ہونے والے روزنامہ سٹیمن کے ایڈیٹر ایان سٹینفہ نے جموں کی مسلم آبادی پر ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا اس سال 1947 کے موسم خزاں میں 5 لاکھ کے لگ بھگ مسلمان یکسر برباد و منتشر ہو کر رہ گئے ۔ تقریبا 20 لاکھ بالکل نیست و نابود ہو گئے۔

ریاست جموں کشمیر کی تحریک آزادی تین مرحلوں پر مشتمل ہے ۔
1 ۔پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں کشمیری باشندوں نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دیا اور ابھی تک اپنی قیمتی جانیں پیش کر رہے ہیں۔

Kashmir

Kashmir

2 ۔ وہ مرحلہ ہے جس میں کشمیر کی عوام نے حق خود آرادیت حاصل کرنے کے لیئے صلح تحریک شروع کر دی۔3 ۔ 9/11 کے بعد کا مرحلہ ہے ۔ نائن الیون کے بعد کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی جو حمایت تھی اس میں یکسر تبدیلی شروع ہو گئی جس سے کشمیر کی جدوجہد آزادی پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دورے حکومت میں کشمیر کے ایشو کو شدید ترین جھٹکا لگا۔ بعد میں آنے والے موجودہ حکمران بھی کشمیر کی حمایت کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ پاکستانی حکمران کشمیر کی حمایت کرتے ہوئے بھارت کو منہ توڑ جواب دیں اور کشمیری بھائیوں کو بھارت کے ظلم و تشدد اور بربریت سے ہمیشہ کے لیئے نجات دلا کر اپنے منصف اور مسلم ہونے کا ثبوت دیں ۔ کشمیری بھائی اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں ۔ پاکستان کی عوام ان کے ساتھ ہیں اور وہ وقت قریب ہے کہ ہم سب سروں پر کفن باندھ کر کشمیری بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بھارت کے خلاف صف آراء ہو کر مردانہ وارمقابلہ کریں گے اور” کشمیر بنے گا پاکستان “اس نعرے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ انشااللہ*
اہل جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔

تحریر:سید مبارک علی شمسی