داستان کربلا

کچھ ایسی ہے نقش ہے دل میں داستان کربلا
جھکنے نہیں دیتاغیر کے آگے دھیان کربلا

ذبح عظیم کی عملی تفسیر ہیں ابن علی
منی میں ابتداء ہوئی ہے انتہا میدان کربلا

درددل رکھنے والوں کی کمی نہیں آج
چھلک پڑتی ہیں آنکھیں سن کر بیان کربلا

پیش آئے ہوئے چاہے بیت گئی ہیں صدیاں
ہوئی ہے نہ ہوگی کسی کوپہچان کربلا

لکھ چکے لکھ رہے ہیں لکھتے رہیں گے
نہیں کرسکے گا مکمل کوئی دیوان کربلا

ہمت نہیں رہی دشمن میں مقابلہ کرنے کی
دیکھا جب سنا للکاررہاہے جوان کربلا

ولادت کے ساتھ ساتھ رہے شہادت کے چرچے
مشہور ہو گیاتھا حیات حسین میں عنوان کربلا

ہرچہرہ غمزدہ تھا ہرآنکھ اشکبارتھی
چلامدینے سے جب پہنچامدینے کاروان کربلا

ملتی ہے سنداعزازکامیاب ہونے کے بعد
عطاء ہوئی سندپہلے پھرہواامتحان کربلا

ملارتبہ کربلامعلی کادشت کربلا کو
لے آئے تشریف جب اس میں مالکان کربلا

عظمت دیکھیے کٹ کربھی سربلندرہا
حسین کی طرح نہیںجھکے صدیقاسیران کربلا

Karbala

Karbala

تحریر : محمد صدیق پرہار