غیرت کے نام پر قتل

Honor Killing

Honor Killing

تحریر : روہیل اکبر

گذشتہ روز بہاولپور کے علاقے بستی خانہ موضع ترنڈہ صاحب یار خان میں غیرت کے نام پر چار خواتین ثمن بی بی، نعیمہ بی بی، سلمی بی بی اور سائرہ بی بی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل معمول بنتا جارہا ہے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہم صدیوں پرانے دور کے باسی لگتے ہیں اسلام نے ہمیں خواتین کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا دور جاہلیت میں جب لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا تھا تو ہمارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں کو وہ مقام دیا کہ جو کسی اور مذہب اور فرقے میں نہیں بلکہ یہاں تک فرمایا کہ شادی بھی انکی مرضی سے کی جائے اور جائیداد میں حصہ دار بنایا آج ہم اپنی جائیدادوں میں سے حصہ دینا تو دور کی بات شادی کرتے ہوئے ان سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور جب لڑکی اپنا حصہ مانگ لے یا اپنی مرضی سے شادی کرلے تو اسے غیرت یا کاروکاری کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے بد چلنی کے شبہے میں عورت اور اس کے آشنا کا قتل کارو کاری کہلاتا ہے غیرت کے نام پر ایسے قتل کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔

یہ رواج پاکستان میں بلوچستان اور سندھ میں زیادہ عام تھا ان کے رسم و رواج کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اس کے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا تھا۔ سندھ میں ایسے قتل کو کاروکاری کہتے ہیں پنجاب میں یہ کالا کالی کہلاتا ہے خیبر پختونخوا میں طورطورہ جبکہ بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام ہے لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے تھے اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی تھی، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے تھے اور بیان دیتے تھے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کر ان دونوں کو مار دیا گیا عام قتل کے برعکس مقتول خاتون کا خاندان ایسے کیس میں پولیس سے تعاون نہیں کرتا نہ قاتل کو پکڑوانے میں دلچسپی لیتا ہے یا ہم ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک لڑکی اپنے خاندان کی رضامندی کے بغیر کسی لڑکے سے شادی کرتی ہے اور لڑکی کے خاندان والے اس بات کو اپنی عزت کی کمی کا باعث سمجھتے اور وہ لڑکی کو اپنی عزت بچانے کی خاطر قتل کر دیتے اور اس قتل پر ان کو کسی قسم کا افسوس نہیں ہوتا۔

اسی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں قندیل بلوچ کا قتل بھی تھا جس کا چرچا دنیا بھر میں ہوا قندیل بلوچ کو سب سے پہلے 2013ء میں میڈیا کی طرف سے توجہ ملی جب وہ پاکستان آئیڈل نامی مقابلے میں حصہ لے رہی تھیں۔ ان کا آڈیشن انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور انہیں انٹرنیٹ پر شہرت ملی۔ وہ پاکستان میں انٹرنیٹ پر تلاش کی جانی والی 10 اولین شخصیات میں شمار ہوتی تھیں اور ان کی پوسٹوں اور وڈیوز پر جج کے موضوعات اور مواد پر انہیں اکثر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا 15 جولائی 2016ء کی رات کو نیند کے دوران اسکا گلا گھونٹ کر مار دیا گیا اسکے بھائی وسیم عظیم نے اس قتل کو تسلیم کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ خاندان کی عزت پر حرف لانے کا سبب بن رہی تھیں۔

شمیم ایمن اداس پشاور کی ایک خوبصورت گلو کارہ تھی اس کا پہلا گیت “زما دا مینے نہ طوبیٰ دا بیاں با ناکون مینا” (پشتو زبان میں) تھا اپنے خاندان کی سخت مخالفت کے باوجود ایک اچھی گلوکارہ بن گئی اس کی بڑھتی ہوئی شہرت کی وجہ سے اس کے دو بھائیوں نے اس کے فلیٹ میں داخل ہو کے اس کی چھاتی پر تین گولیاں چلائیں اور قتل کردیا وہ دونوں بھائی آج تک پکڑے نہیں گئے۔ 20 جولائی 2016 کو ایک 28 سالہ برطانوی پاکستانی خاتون سمیہ شاہد مردہ پائی گئیں ان کے شوہر سید مختار کاظم کا خیال ہے کہ ان کا قتل نام نہاد غیرت کے نام پر ہوا ہے۔سامعہ سرور کو اس کے خاندان نے اپریل 1999 میں انسانی حقوق کی معروف کارکن عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے لاہور دفتر میں قتل کر دیا تھا پولیس نے نہ تو کوئی گرفتاری کی اور نہ ہی قانونی چارہ جوئی کی کیونکہ سرور کا خاندان اشرافیہ، سیاسی حلقوں میں کافی مشہور ہے۔

خیرپور ضلع کے گاؤں ہجنہ شاہ کی 17 سالہ تسلیم خاتون سولنگی جو آٹھ ماہ کی حاملہ تھیکو 7 مارچ 2008 کو اس کے گاؤں کے افراد نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے تشدد کر کے قتل کر دیا کہ اس نے قبیلے کی بے عزتی کی ہے۔ 19 فروری 2017 کو گوجرانوالہ میں پنجاب کی وزیر برائے سماجی بہبود ظل ہما عثمان کو مولوی سرور مغل نامی مذہبی جنونی نے گولی مار کراس وقت قتل کردیا جب وہ ایک کھلی کچہری میں لوگوں کے مسائل سننے جارہی تھی عدالت سے خطاب کرنے جارہی تھی ملزم پرپہلے بھی چار ماڈل لڑکیوں کو ہلاک کرنے اور ایک درجن دیگر کو زخمی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر اسے مقامی عدالت نے ثبوت کے فقدان پر بری کردیا تھا۔ 14 جولائی 2008 کو بابا کوٹ بلوچستان میں عمرانی قبیلے کے ہاتھوں پانچ خواتین کو غیرت کے نام پر پہلے اغوا کرکے مارا پیٹا گولی ماری اور پھر زندہ دفن کر دیا گیا۔27 مئی 2014 کو فرزانہ اقبال حاملہ خاتون کو اس کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ کے سامنے پسند کی شادی کرنے پر سنگسار کر دیا۔

2015 یں صبا قیصر کے بارے میں ایک دستاویزی فلم ریلیز کی گئی پنجاب، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جس نے اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف ایک مرد سے شادی کی جس پراس کے باپ اور چچا نے اسے مارا پیٹا اس کے سر میں گولی مار ی لاش کو بوری میں ڈال کر دریا میں پھینک دیا حیرت انگیز طور پر صبا بچ گئی۔ جنوری 2017 میں ایک پاکستانی ماں کو اپنی بیٹی زندہ جلا کر قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ جون 2020 صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں مبینہ طور پر کارو کاری کی روایت میں ایک خاتون کو سنگسار کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ لڑکی نور مقدم کو جولائی2021 میں بے دردی سے قتل کر کے سر قلم کر دیا گیا۔کاشانہ کی یتیم اور بے سہارا بچیوں کو جنسی استحصال کے بعد قتل کردیا گیا اور انکی سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف آج تک حصول انصاف کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے اسی طرح پنجاب اسمبلی کی سابق رکن سیمل کامران کو بھی راولپنڈی میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگر خوش قسمتی سے وہ بچ گئی پاکستان میں ہر سال تقریبا پانچ ہزار سے زائد خواتین کو انہی بے بنیاد الزامات کی وجہ سے مار دیا جاتا ہے اسلام ہمیں خواتین کی عزت کا درس دیتا ہے نہ جانے کب ہم مسلمان بنیں گے اور غیرت کے نام پر معصوم کلیوں کو مسلتے رہیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر