کیسی تصویربن گئی پاکستان کی!

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں ایک وقت ایسا تھا جب اس کی عظمت کا ستارہ آسمان کی بلندی پر چمکتا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی تقدیر، تعمیر اور رکھ رکھائو اس قدر عمدہ تھا کہ سارا عالم کھنچا چلا آتا تھا۔ ہمارے یہاں کی مہمان نوازی اور ہماری میزبانی کے چرچے زبان زدِ عام تھے ۔ لوگ تمام صعوبتیں جھیل کر یہاں آنے کو ترجیح دیتے تھے اور بذاتِ خود مشاہدہ کرتے تھے کہ پاکستان میں مہمان کو خدا کا فرستادہ اور رحمت تصورکیا جاتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد سب کا تاثر یہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے بارے میں جتنا سنا تھا اس سے کہیںزیادہ پایا۔

بیسویں صدی کے آخر تک پاکستان اپنی اسی زرین تاریخ سنہرے جواہرات اور انمول اقدار کے ساتھ رہا مگر جیسے ہی اکیسویں صدی نے اپنا قدم رنجا کیا تو پاکستان کے چاند سورج ستارے سب گہنا گئے۔ ملک کے طو و عرض میں گاہے بگاہے مسلسل، وقت بے وقت فرقہ وارانہ فسادات، ٹارگٹ کلنگ، آپسی سازشوں اور مذاہب کے نام پر قتل و غارت کا بازار جو گرم ہوا تو ابھی تک تسلسل سے جاری ہے۔ مسلمان ویسے تو بھائی بھائی ہیں مگر اس معاملے میں بھائی بھائی کو مارنے لگا۔ کہیں اپنا حق مانگنے والوں کا محاصرہ کرکے گولیاں چلنے لگیں، کہیں فرقہ واریت کو ہوا دی جانے لگی، مطلب یہ کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ مار دھاڑ کا بازار گرم ہی ہے اور کتنے ہی خونِ ناحق بہا دیا گیا۔

آج کے پاکستان کی حالت ایسی ہوگئی کہ اگر قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کی روح تڑپ رہی ہوگی۔ اور اگر کوئی زندہ یہ سب کچھ دیکھ لے تو خون کے آنسو رو پڑے، اور پاکستانیوں سے یہ کہیں گے کہ ‘ کیسی تصویر بن گئی پاکستان کی!’اس پاکستان کی جسے دنیا ارضی جنت میں شمار کیا کرتے تھے، اور جن میں ہمارے آبائو اجداد نے وہ نظارے دیکھے تھے جن کی نظیر ہمیں کہیں نہیں ملتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ قتل و خون اور فسادات و انارکی کا سلسلہ یہیں ختم ہوگیا بلکہ اس کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا اور جرائم نے نئی نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں۔ خود کشی، ڈاکہ زنی، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملے، بم دھماکے، وغیرہ ۔ دور کیوں جاتے ہیں۔

اب تو شہرِ قائد میں بھی یہ سلسلہ دراز ہو چکا ہے اُس شہرِ قائد میں جہاں تمام عالمی برادری کی نظر رہتی ہے، یہاں ہونے والی ہر آہٹ کی دھمک باہر سنائی دیتی ہے۔ یہ شہر بھی ان سلسلوں سے محفوظ نہیںاور نہ ہی تھمنے کا نام لے رہا ہے۔ ایک سے ایک دل ہلا دینے والا حادثہ رونما ہوتا رہتا ہے۔ سرِ راہ چلتے چلتے قتل کر دینا یہاں عام ہو گیا ہے۔ اس کی زد سے کوئی محفوظ نہیں ہے نہ عام آدمی اور نہ ہی کوئی خاص آدمی۔ غنڈوں کی شر پسندی کا یہ عالم ہے کہ دن کے اُجالے میں بھی لوگ سہمے سہمے رہتے ہیں۔ شام ہوتے ہوتے تو ان کے دلوں کی دھڑکنیں سینہ پھاڑ کر باہر نکلنے کے لیے بے تاب رہتی ہیں۔

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

وہ بار بار آگے پیچھے ، دائیں بائیں مُڑ مُڑ کر دیکھ کر چلتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی طرف سے کوئی لٹیرا آجائے اور اسے اس کے اپنے مال و اسباب سے محروم کر دے۔ یہ آج کا شہرِ قائد ہے جو پاکستان کا دل کہلاتا ہے اور ترقی یافتہ ملکوں کا غرور بھی ہے۔ یہاں قانون، انتظامیہ سب بیکار ہیں۔ بے شمار ایسے رپورٹس منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن کے بطور چھوٹے اہلکار سے لے کر بڑے آفیسران تک کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سطح پر برائیوں میں ملوث ہیں۔

ان تمام صورتحال میں بھی ہمارے یہاں الیکشن کی گہما گہمی جاری ہے۔ گو کہ ابھی تک ویسی تیزی دیکھنے کو نہیں ملی جس سے یہ گمان ہو کہ یہاں الیکشن اتنا نزدیک تر ہے۔ امروہوی صاحب سے بہت معذرت کے ساتھ کہ ان کے شعر میں ردو بدل کرنا پڑا۔
چنائو کی یہاں تیاریاں ہیں
پرانی پھر وہی بیماریاں ہیں
اُدھر اٹکھیلیاں ہیں لیڈروں کی
اِدھر عوام کی بیزاریاں ہیں
اب ایسے موڑ پر جب ہمارے یہاں الیکشن ہونے کو ہیں تو ہر لیڈر یہی کہتا ہو پایا جا رہا ہے کہ میں امن و امان دوں گا، میں بے روزگاری ختم کروں گا، میں مہنگائی کنٹرول کروں گا، میں دہشت گردی سے نجات دلائوں گا۔

یہ سارے وعدے وعید اپنی جگہ مگر الیکشن کمیشن کو بھی ایک ضابطۂ اخلاق بنانا چاہیئے جس سے یہ لیڈروں کی ٹولی اپنے وعدے کو ایفا ء کرنے کے پابند ہو جائیں۔ ایسا ضابطۂ اخلاق کا نفاذ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب عوام کا اعتبار کسی پر نہیں رہا۔ عوام نے اس قدر پریشانیاں جھیلی ہیں ، اتنے دُکھ برداشت کئے ہیں کہ اب ان کو صرف وعدوں کی لولی پاپ سے بہلایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے یہاں ایسے بد ترین حالات میں بھی یہ کلچر نمایاں رہا ہے کہ اپنا سب جمع پونجی لگا کر اسمبلی میں پہنچوں اور بعد میں عوام کا پیٹ کاٹ کر اپنی ڈوبی ہوئی دولت کی نیّا کو پار لگائو اور اگر کچھ بچ جائے تو عوام کے لئے رکھ چھوڑو۔ ایسا کرتے کرتے دوسری مدت کے الیکشن کا وقت آن پہنچتا ہے اور عوام پھر سے وہیں کھڑے پائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے اس ہنگامہ خیزی میں جو بھی چوٹیں آئیں اور جو بھی ان چوٹوں سے درد ابھرااس درد کا احساس صرف غریب عوام کے لئے ٹھہرا۔ امیروں کو اس کربناکی سے بھلا کیا لینا دینا۔ بس ایک مذمتی بیان اور ایک نوٹس کا لیا جانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ دو دن گزرنے کے بعد تمام حالات پھر سے اس ڈگر پر آ جاتے ہیں اور بشمول لوگوں کے ارباب بھی اُس واقعہ کو بھلا دیتے ہیں ایسے میں پھر کوئی نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔ بس یہی سلسلہ چل رہا ہے اور پتہ نہیں کب تک چلتا رہے گا اور عوام اس میں جھلستے رہیں گے۔ شہرِ قائد بشمول تمام ملک میں شر پسندی پھیلانے والوں کو ذرا بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہاں ہونے والا ہر ہنگامہ، ہر آہٹ، ہر دھمک، ہر قدم پر براہِ راست عالم کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔

Murder Pakistan

Murder Pakistan

یہاں کے رات و دن کیسے خوف و دہشت سے گزرتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں جو یہاں رہتے ہیں۔ ذرا سوچیئے جب یہ آئینہ ہی داغ دار ہو جائے گا ، اس پر سیاہ دھبے ہوں گے تو باقی پاکستان لاکھ ترقی کرے لاکھ وہاں امن و امان ہو، پُر سکون حالات ہوں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہو ، مگر پاکستان پھر بھی ظالم ، قتل و خوں کی آماہ جگاہ کے طور پر ہی جانا جائے گا اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں (ان میں کسی بھی فکر کے لوگ ہو سکتے ہیں) جو ایسے کرتوت کرکے مادرِ وطن کے سینے کو چھلنی کرنے کے دَر پہ ہیں۔

آج کی اس ظالم دنیا میں انسان حرص و ہوس کی چمک دمک میں منہمک نظر آ رہا ہے ۔ لوگ اس میں بھی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، جس کسی کو دیکھو وہ مال و دولت کے حصول میں صرف تگ و دو کر رہا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان نے ان تمام حرکات و سکنات میں حلال و حرام کی تمیز کو بھی بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے۔بس ہر طرف مزید دولت کی پکار ہے، اخلاقی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی عزت و ناموس کو اپنے پیروں تلے روندنے کے دَر پہ ہیں۔ بڑوں کا ادب و احترام دلوں سے ناپید ہوتا جا رہا ہے، لوگ شر کے پیچھے بے تحاشہ دوڑے چلے جا رہے ہیں یہ بھول کر کہ گریں گے تو چوٹ انہیں ہی لگنا ہے۔

ایسے نازک حالات میں ہر انسان کو صبر و شکیبائی سے، دعا و استغفار سے، نیک کاموں سے مدد لینی چاہیئے اور عزم و حوصلہ سے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا چاہیئے ۔ قرآن و حدیث کے احکام پر عمل پیرا ہونا چاہیئے، اپنی زندگی کو ایک امانت سمجھنا چاہیئے اور س کے ہر لمحے کو بیش قیمت سمجھنا چاہیئے اور یہ سب کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمیں مل سکتا ہے، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو چہار جانب
انسانیت پِنپ رہی ہوگی، زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی ہوگی اور ملک بھی ترقی کے سفر پر گامزن ہو جائے گا۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی