انسانیت کی قاتل قوتیں

Terrorism

Terrorism

نیک محمد کی موت سے صرف چند روز قبل ایک صحافی نے کہا تھا” کیا پاکستان میں دہشت گردی کا باب بند ہونے والا ہے ؟ اُس کا اشارہ شاید طالبان کمانڈر نیک محمد کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی طرف تھا پھر ایک روز اُس کی المناک موت کا سن کر عجیب درد محسوس ہوا کہ ہم کل جس شخص کے گلے میں سرخ پھولوں کے ہار ڈال رہے تھے اُسے خون کی سرخی میں نہلا دیا کئی روز بعد دوستوں کی محفل جمی موضوع گفتگو نیک محمد تھے اُس دوست کا پھر وہی سوال تھا۔

کیا نیک محمد کی موت سے دہشت گردی (جسے حکومتی زعما دہشت گردی کہتے ہیں اور امریکہ کی گھڑی ہوئی اختراع ہے کا باب پاکستان میں ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا احباب کی اکثریت جن میں میری آواز بھی شامل تھی نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہرگز نہیں ہم نے امریکہ کی زبان میں جہاد کو دہشت گردی اور مجاہدین کو دہشت گرد تو قرار دے دیا مگر پس منظر کا کھوج نہ لگا سکے آج پھر اے پی سی ہو رہی ہے یقیناً خدا کرے یہ کاوش کامیاب ہو مگر مجھے لاہور کے میاں مقصود جن کاتعلق جماعت اسلامی سے ہے آج پھر یاد آرہے ہیں اُن دنوں وانا میں آپریشن ہونے جا رہا تھا۔

ایک آمر اپنے موقف پر ڈتا ہوا تھا اور اُنہی دنوں میاں مقصود جنوبی پنجاب کے دورے پر تھے وہ میرے ضلع لیہ آئے تو میں نے متوقع وانا آپریشن پراُن کا موقف جاننے کی کوشش کی تھی اُن کے چہرے پر کرب تھا ایک دکھ تھا جو اندر سے پھوٹتا ہے اس کرب کے حصار میں انہوں جو جواب دیا آنے والے وقت نے اُس کی تصدیق کردی اُنہوں نے کہا تھا خدا کرے یہ آپریشن نہ ہو ایک عالمی طاقت فوج اور قبائلیوں کو مد مقابل لانے کے منصوبہ کی تکمیل چاہتی ہے بطور محب وطن پاکستانی میں اسکی سختی سے مخالفت کرتا ہوں گولی قبائلی کی طرف سے چلی یا کسی عسکری نوجوا ن کی گن سے نکلی لہو پاکستانی کا گرے گا۔

وزیرستان کے غیور قبائلی اصلی پاکستانی ہیں وہ انا خودی، غیرت کی آخری سٹیج پر کھڑے ہو کر جاں سے گزر جائیں گے اُن کو توڑا تو جا سکتا ہے جھکایا نہیں جاسکتا میاں مقصود سے میری پھر ملاقات نہ ہو سکی مگر ایک آمر نے جس آپریشن کی شروعات کیں اُس نے ہم سے 45 ہزار قیمتی جانیں چھین لیں اور عالمی طاقت کی اس جنگ میں 70 ارب ڈالر کے معاشی نقصان نے ہماری کمر توڑ دی کسی کی جنگ اور کندھا ہمارا جس کا اختتام رکنے میں نہیں آ رہا اقبال نے کہا تھا !
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے مفلس کو جو تاج سرِ دارا
نیک محمد بھی یہی خصوصیات رکھتا تھا وہ وانا اور وزیرستان میں اُن امریکی اڈوں کے خلاف تھا جن کا قیام قبائلیوں کی غیرت پر پائوں رکھ کر یقینی بنایا گیا نیک محمد پر داغا جانے والا میزائل بھی امریکہ نے داغا اصل میں یہ ڈرون حملہ تھا۔ جس نے مذاکرات کو سبو تاژ کردیا نیک محمد نے اپنے آخری انٹرو یو میں یہ کہا تھا کہ ”حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کیلئے قبائلیوں کا اپنا دشمن بنا لیا قبائلی خود مختار ہیں قبائلی علاقے حکومتی چھائونی نہیں جب چاہے چڑھائی کردے ہم اپنا دفاع خود کرتے رہے ہیں۔

Nek Mohammad

Nek Mohammad

حکومت نے کبھی ہمارا دفاع نہیں کیا ”نیک محمد کی طرح وزیرستان کے ہر باسی کے یہی الفاظ ہیں امریکی خوشنودی کی خاطر جن کی موت کے ڈیتھ وارنٹ اٹھائے بھا گتے بھا گتے ہماری سانسیں بھی بوجھل ہو گی ہیں۔ لندن کرانیکل کی فائلیں یہ واضح کرتی ہیں کہ 1850 سے لے کر 1947 تک قبائلیوں نے معروف انگریز جرنیلوں کو ناکوں چنے چبوائے 1960 میں یہاں انگریز جنرل چمبرلین کی عمل داری بعد ازاں انگلینڈ کا وزیراعظم بنا لندن کرانیکل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں چیمبرلین نے قبائلیوں کو نہایت ہی بے رحم، سفاک اور جری جنگجو قرار دیا اُس نے لکھا کہ اگر آپ نے قبائل کی عزت اور ناموس پر نگاہ غلط انداز ڈالی تو پھر آپ نے گویا اپنی قبر خود کھو د ڈالی مضمون کے مطابق مسحود اور وزیر قبائل اپنے دشمن کا خون پی کر پیاس بجھاتے ہیں اور قبائلی نوجوان زیادہ سے زیادہ انگریز فوجیوں کو قتل کر دینے کے لیے شرائط باندھتے ہیں 1852 میں جنرل نکلسن، 1858 میں کرنل راگن 1881 میں جنرل کنیڈی کو قبائلی بغا وت کچلنے کا مشن سونپا گیا۔

سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے بھی قبائلیوں کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے کچھ عرصہ وانا میں گزارا وہ قبائلیوں سے سخت خائف تھا ملا پاوندا کو بھی قبائلیوں کی قادت کا اعزاز رہا ہے۔ 1897 میں شمالی وزیرستان کی ایک جگہ مکین کے مقام پر ایک ہی دن میں مجاہدین نے 6 برطانو ی طیاروں کو مار گرایا تھا۔ برطانوی فوج کو اطلاع ملی تھی ملا پا وندا صدر مکین میں موجود ہیں چنانچہ بیک وقت درجن بھر طیاروں نے علاقے پر پروازیں شروع کیں مجاہدین نے حملہ کر کے 6 طیاروں کو مار گرایا ملا پاوند اکے بعد ملا فضل دین، ملا عبدالحکیم نے بھی یہاں کے مجاہدین کی قیادت سنبھالی حاجی مرزا علی خان مسحود المعروف ایپی فقیر اپنے دور کے اولیا اللہ اور نامور مجاہد کمانڈروں میں سے تھے انہوں نے پچاس سال مجاہدین کی قیادت کی یہ قوتیں محب وطن تھیں اور آج اگر تحریک طالبان پاکستان خود کو پاکستانی سمجھتی ہیں تو اُن کا کوئی کردار انسانیت کے حوالے سے قابل فخر نہیں بلکہ قابل نفرت ہے۔

اُن کا اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں کیونکہ اسلام میں کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے یہ وہ قوتیں ہیں جو امریکہ کے اشارے پر ملک میں امن قائم ہونے نہیں دے رہیں پاک افواج کے تین اعلیٰ افسران کی شہادت اسی بات کا عندیہ ہے اپر دیر وزیرستان میں ہونیوالے حملہ میں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی، لیفٹینینٹ کرنل توصیف، لائس نائک عرفان شہید پر حملہ کرنے والی قوتوں نے دہشت گردی کا جو ثبوت دیا وہی ثبوت اِن انسان دشمن قوتوں نے چرچ پر حملہ کرکے سات معصوم بچوں، چونتیس عورتوں اور چالیس بے گناہ مردوں کا لہو بہا کر فراہم کیا یہی کچھ اُس وقت ہوا جب نیک محمد کے ساتھ امن مذاکرات ہورہے تھے جب اُن پر ایک میزائل داغا گیا اور امن مذاکرات کا عمل رک گیا امن کیلئے پاکستانیوں کی قربانیاں کم نہیں بلکہ قابل ستائش ہیں مگر اب تو ہمارے ہاتھ شیل ہیں لاشیں اُٹھا اُٹھا کر اب باہوں میں سکت نہیں رہی مذاکرات کیئے جائیں مگر اُن قوتوں سے جو انسانیت کی قاتل نہیں جو کسی ملک دشمن قوت کی آلہ کار نہیں ہیں۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک