این آئی سی ایل کیس، ظفر قریشی کے تبادلے نہ کیے جاتے تو رقم وصول ہو جاتی،چیف جسٹس

Chief Justice

Chief Justice

اسلام آباد (جیوڈیسک) این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ اربوں روپے کا فراڈ ہوا، تفتیشی افسر کے تبادلوں سے کچھ ریکوری ہو سکی باقی نہیں، ظفر قریشی کے تبادلے نہ کیے جاتے تو رقم بھی وصول ہوتی اور ملزمان بھی جیل جاتے۔چیف جسٹس کہتے ہیں اس کیس کا فیصلہ دینگے،توہین عدالت کی تو کسی کو پرواہ نہیں۔

سپریم کورٹ میں این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے، دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اربوں روپے کا فراڈ ہوا، کچھ رقم کی ریکوری ہوئی ہے کچھ کی نہیں۔انہوں نے استفسار کیا کہ چیئرمین این آئی سی ایل ایاز نیازی کی تقرری کی منظوری حاصل کرنے پر سیکرٹری تجارت کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ تفتیشی افسر ظفر اقبال قریشی کو ہٹانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پوری ریکوری نہیں ہو سکی، ظفر قریشی کے تبادلے نہ کیے جاتے تو رقم بھی وصول ہوتی اور ملزمان بھی جیل جاتے،چیف جسٹس نے کہا کہ این آئی سی ایل کرپشن سے قومی خزانے کو ہونیوالے نقصان کا ذمہ دار کون ہے۔

اس کیس میں پنجاب سے 46 کروڑ کی ریکوری باقی ہے، بظاہر اس کیس میں کرپشن کو فروغ دیا گیا اور ملی بھگت کی گئی تا کہ یہ مقدمہ نہ چل سکے، چیف جسٹس نے کہا کہ ظفر قریشی کے تبادلوں کی وجہ سے قمرزمان چودھری، عبدالروف چودھری اور خوشنود لاشاری کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے، انہوں نے کہا کہ ہم اس کیس کا فیصلہ دینگے، توہین عدالت کی تو کسی کو پرواہ نہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ این آئی سی ایل کرپشن سکینڈل سے بڑے بڑے لوگوں کی جیبوں میں پیسہ گیا، قومی خزانے پر ڈاکہ ڈال کر عوام کو ان کے پیسے سے محروم کیا گیا۔