بھارت: متنازعہ بل پر احتجاج، امریکا و برطانیہ کا سفری انتباہ

Protest

Protest

آسام (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں شہریت سے متعلق بل پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے شمال مشرقی حصے میں جاری شدید کشیدگی کے تناظر میں امریکا اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کے لیے سفری انتباہ جاری کر دیا ہے۔

بھارت میں اسی ہفتے منظور ہونے والے شہریت ترمیمی بل (CAB) پر ملک گیر احتجاج جاری ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں ہفتے چودہ دسمبر کو بھی ریلیوں اور مظاہروں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ قبل ازیں بل کی منظوری کے بعد سے جاری کشیدگی اور جھڑپوں میں اب تک دو افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔

اسی تناظر میں جمعے تیرہ دسمبر کی شب امریکی و برطانوی حکومتوں نے اپنے اپنے شہریوں کو شمال مشرقی بھارت سفر کرنے سے خبردار کیا اور کہا کہ اگر جانا ضروری ہے، تو احتیاط برتی جائے۔ جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے اپنی ایک سمٹ منسوخ کر دی، جسے اتوار کو گوہاٹی میں منقعد ہونا تھا۔

گو کہ شہریت ترمیمی بل (CAB) پر ملک گیر احتجاج جاری ہے، ریاست آسام کا شہر گوہاٹی اس کا گڑھ بن کر ابھرا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس علاقے کے شہریوں کا ایسا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہزارہا مہاجرین اس متنازعہ بل سے مستفید ہو سکیں گے۔ شہریوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیشی مہاجرین وہ ملازمتیں لے لیں گے جن پر ان کا حق ہے اور یہ بھی کہ ان کی وجہ سے علاقے کی ثقافتی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔

جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب گوہاٹی میں کسی بڑے واقعے کی اطلاع نہیں ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک دو افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہو چکے ہیں۔ ہفتے کو مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے سے شام چار بجے تک شہر میں کوفیو بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔

اس متنازعہ بل کی منظوری پر احتجاج ملک کے دیگر حصوں میں بھی جاری ہے۔ مغربی ریاست گجرات کے علاوہ جنوب میں کرناٹک اور کیرلا میں بھی احتجاجی ریلیاں منعقد ہوئیں۔

شہریت ترمیمی بل (CAB) کی بدولت بھارت کے پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم افراد کی بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر پھرتی سے کارروائی ممکن ہو سکے گی۔ مسلم گروپ، غیر سرکاری تنظیمیں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے اس بل کو مودی سرکار کے ہندو قوم پرست پروپیگنڈا کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

بھارت میں اس بل کی منظوری پر ایوان بالا اور ایوان زیریں میں کافی افراتفری دیکھی گئی اور ایک قانون ساز نے تو اسے سابقہ نازی جرمن دور میں سن 1930 میں منظور ہونے والے یہودی مخالف بل سے بھی تعبیر کیا۔ علاوہ ازیں مغربی بنگال، پنجاب، کیرلا، مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں کے وزرائے اعلی نے کہا ہے کہ وہ اس بل پر عملدرآمد نہیں کریں گے۔