حساب برابر

Ertugrul Ghazi

Ertugrul Ghazi

تحریر : شاہ بانو میر

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ الہیٰ
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

سونیا گاندھی نے طنزا یہ کہا تھا
کہ
پاکستان کے ساتھ
بھارت کو ہتھیاروں کے ساتھ دوبدو لڑائی کی ضرورت نہیں ہے
ہم نے اپنی ثقافت فلموں اور ڈراموں سے
ان کے گھر گھر کو ذہنی غلام بنا رکھا ہے
بات سو فیصد سچ تھی یہ منظر آنکھوں سے دیکھا
اکثرگھر آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک
خواتین ڈراموں کیلئے بھاگ بھاگ کر کام کر رہی تھیں
اس دوران
گھر میں کسی کی مجال نہیں اہل خانہ سے کچھ مانگ سکے
جب تک ڈراموں کا تسلسل مکمل نہ ہو
پھر
انڈیا کو ہر محاذ کی طرح یہاں بھی شکست فاش ہوئی
صرف ایک ہی ڈرامہ نے
بھارت کے تمام فلمی اور ڈرامے کے کرداروں کو
چاروں شانے چت کر دیا
ارطغرل ترکی ڈرامہ شروع ہوا
دھوم سنی تو دیکھنا شروع کیا
سکووووون ہی سکووووون
ٹھنڈک سی اترنے لگتی جب جب دیکھتی
تشنگی میں جام حیات لگا
وہ سب سکرین پر تھا
جو کل تک کتابوں کے صفحات میں پڑہا تھا
میرا اصل میرا ماضی اسلامی کتابوں کے تمام کردار
عزم مصمم رکھنے والے مجاہد
تین بر اعظموں تک اسلام کا جھنڈا لہرانے والے
خانہ بدوش
انکی کامیابی ان کی طاقتور روایات تھیں
دینی احکامات پر مکمل تعمیل ہی اصل میں
ناقابل یقین کامیابی کی ضمانت تھی
قائی قبیلہ کی فتح میں ماؤں کا بہت کردار تھا
محنتی انتھک جدو جہد
تیر تیار کرتی چاقو خنجر سے نیزے تلوار تک پر عبور
کے ساتھ ساتھ تربیت کیلئے عاجزی اور محبت کے ساتھ
نبی پاکﷺ کی داستانِ حیات تھیں
استاد شاگردوں کو سنت محمدی کے مطابق
حلقے میں لے کر بیٹھتا
مثبت انداز میں دین اسلام کی بنیادوں پران بچوں کو کل کیلیۓ ارطغرل بناتا
آیات قرآنی اور احادیث کا حسین امتزاج اس ڈرامے کو لازوال بنا گیا
پاکستان ٹیلی وژن اور فلموں میں اِکا دکا ڈراموں کے علاوہ
کوئی تاریخی موضوع دلوں کو گرما نہیں سکاؤ
مگر
ترکی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں
ارطغرل نے نئی نسل کو ایک دم ہوش دلا دی
ہر طرف ایک ہی نام ایک ہی ذکر ایک ہی پیام ہے
ارطغرل غازی
تاریخ کو پڑہتے پڑہتے انسان کھو جاتا ہے
کبھی
کہیں دور صحراؤں میں جا پہنچتا ہے
جہاں
سرپٹ دوڑتے گھوڑے اور ان پر بیٹھے شہسوار
موسمی تغیرات سے لاپرواہ
نئے جہاں کھوجنےوالے
مقصد ِدین کی خاطر لڑنا ان کا مقصد تھا
شھادت یا غازی بن کر لوٹنا
چند ہزار نفوس پر مشتمل قبیلہ قائی
کیسے دنیا کی سپر پاورز سے ٹکراتا ہے
اور
انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے
ان کے قلعوں کو کاغذی کشتی کی طرح فضا میں بکھیرتا ہے
وہ اللہ کو راضی کرنے نکلتے تھے
قرآن آیات ان کا ترجمہ اور اسلام کے حقیقی واقعات
بچوں کے ہوش سنبھالتے ہی
ان کے آباء کی بہادری کے قصے سنا کر
ان کو تلوار تیر نیزے سے کھیلنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے
یوں بہادری ان کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے
کہ
بچپن سےتدریس کا یہ انداز
انہیں تاریخ میں زندہ رہنے کا گُر سکھا دیتا ہے
نتیجہ
کہیں
سلیمان شاہ قابل تعظیم سردار ہے
اسلام کے احیاء کا وہ خواب جس کی تعبیر
اسکی دشمنوں پر برق کی طرح گرتی تلوار
آج ہمیں دے رہی ہے
ارطغرل
ڈرامہ نہیں ہے ہمارا گمشدہ ماضی ہے
جس سے ارطغرل نے ہر مسلمان کو ملا دیا
تاریخ جن سے بڑے کام لینا چاہتی ہے
اپنی ذات کی شہرت اور دکھاوے سے انہیں لاپرواہ کر دیتی ہے
ارتغرل کوبھی
اللہ نے خاص بنا دیا
آہنی عزائم کی مالک حائمہ خاتون کے بیٹے بھی
ماں کی پرورش کا حق ادا کرتے ہیں
آج کی ماں کیلئے
حائمہ خاتون نے تربیت کے حوالے سے سوال چھوڑ دیا؟
ہمیشہ باقی رہنے والا نام
اللہ کا ہے
یہی وہ نعرہ ہے جو جانبازوں کا لہو ایسا گرماتا ہے
کہ
فتح خود قدم چومنے آجاتی ہے
دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے
گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونجتے دشت و صحرا و بیاباں
آج ہمارے نوجوان کوپھر سے حوصلہ دے رہے ہیں
مسلمان نوجوان کا مزاج بھی بدلنے لگا
قرآن کی سمجھ آنے لگی تب سے سوچ آتی تھی
یہ جو کچھ ارد گرد ہو رہا ہے
وہ ہمارا نہیں ہے
نہ مرد مومن کا کردار ہے اور نہ خاتون خانہ کا
یہ معاشرہ اسکے انداز اطوار ہمارے نہیں پرائے ہیں
ایمانی قوت اور مومن کی شان
وہ خیالوں میں دیکھتی تھی
شکریہ ارتغرل
کہ
مصنف کی مشکور ہوں اس نے جیسے
میرے تمام افکارکو یکجا کرکے ڈرامہ میں ڈھال دیے
عذاب آج کس کس صورت ہم پر نازل ہو رہا ہے
کیوں نہیں سوچتے ہم
کہ
ہم اپنے اصل سے ہٹ چکے ہیں
قرآن مجید کھولنے کی اور پھر ترجمے سے پڑہنے کی توفیق
اللہ ہم سب کو عطا فرمائے
تو
عذاب اقوام پر یونہی اترتے رہے
اللہ کے لشکر
کہیں ٹڈی کی صورت اور کہیں اس سے بھی حقیر کرونا
کی صورت انسانیت کے غرور کو مسل کر پھینکتا جا رہا ہے
دنیا بدل گئی
اس کرونا نے طاقتوروں کو
اللہ کا اصول سمجھا دیا
جو سب کیلیے برابر ہے
آگہی شعور تعلیم سے نہیں ہے
اس قرآن سے ہے
دلوں کی سختی کم صرف قرآن سے ہوگی
رعونت فرعونیت کا خاتمہ ہمارے اندر سے ہو گیا
تو
دنیا پھر سے
سلطنت عثمانیہ کے ارتغرل اور عثمان دیکھے گی
ہمیشہ یہی بتایا گیا
کہ
ماضی میں کبھی ہم طاقتور تھے
کبھی اسلام کا سکہ رائج تھا
مگر
جب سے ہوش سنبھالا
ایک تو پاکستان پر نازک وقت کا نزول ہوتا دیکھا سنا
اور
تنزلی کو مزید تنزلی کی جانب مائل دیکھا
نمازیں بھی گھر گھر قرآن بھی ذکر و اذکار بھی
پھر کیا وجہ ہے
کہ
آج ہم خوار و رسوا ہیں؟
وجوہات کا جواب اسی ڈرامے میں پنہاں ہے
عمل کیلئے اس میں بہت اسباق ہیں
ڈرامہ نہیں ہے اسلام کا تاریخ کا بر اعظموں کا
مختلف معاشروں کا الجھا ہوا گچھا ہے
جسے
مصنف نے بڑی مہارت سے
حسین گلدستے میں گلاب کے الگ الگ رنگوں سے یکجا کیا
ان قبائلیوں کے سادہ طرز زندگی میں وہ طاقت تھی
رضائے الہیٰ کیلئے جان دیتےتھے
یہ عظیم رویّے ہمارے اسلاف ہی کے تھے
وقت بدلا
مجاہدانہ زندگی مشکل لگی تو
ہمارے دشمنوں نے ہمیں تن آسان یوں بنا دیا
وڈیو گیم میں اصل کی بجائے تصویری تلوار تھما دی
ریموٹ کنٹرول سے فاتح بن گئے
تاریخ جنہیں مٹانا چاہتی ہے انہیں
تن آسان بنا دیتی ہے
یوں
ہم نے ہیجڑانہ طرز زندگی اس لئے اختیار کر لیا
یہ بہت آسان تھا
مکمل بربادی سے پہلے
ارطغرل نے ہمیں یاد دلایا
دشمنوں کی تلواریں میں گھرے ہوں یا تیروں سے سینہ چھلنی ہو
چہرے پر شھادت کا
غرور اور چال میں توازن صرف مومن کی شان ہے
الحمدللہ
نوجوان نسل دیوانہ وار اس کو دیکھ رہی ہے
الحمد للہ
اللہ نے سنی
اور
دین کا عروج دکھا دیا
جو
دیکھنے کو نظریں بیقرار تھیں
وہ اڑتی دھول وہ گھوڑے کی پشت پر بیٹھے جانباز
گرد اڑاتے دھول چٹاتے تلواروں کی جھنکار میں
گونجدار آواز
اللہ ہی باقی رہنے والی ذات ہے
فتح اللہ کی
کوشش ہماری
غیرت بیدار کرتے اس نعرے نے
آج تو سونیا گاندھی کو تمانچہ دے مارا
سونیا گاندھی
ہم نے حساب برابر کر دیا
آج تمہاری فلمیں پِٹ گئیں
ڈرامے ختم
ارطغرل پوری دنیا میں راج کر رہا ہے
خیموں میں بسنے والے خانہ بدوش قبیلہ ہی ان پر حاوی ہو گیا
یوں اس ایک قبیلہ کی دلیر تاریخ نے
اس وقت پورے عالم اسلام کو عزت اور محترم بنا دیا
کیا ہی خوب الفاظ خراج تحسین پیش کیا ہے
اقبال نے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکجا
خبر میں نظر میں اذانِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اِس نے پایا انہی کے جگر میں
کشادہ درِ دل سمجھتے ہیں اُس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مُردہ میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر