بھارت: خودکشی کے واقعات میں ڈرامائی اضافہ

Suicide

Suicide

ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ برس جن لوگوں نے خودکشیاں کیں، اس میں مزدوروں اور بے روز گار افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ خودکشی سے مرنے والوں میں، طلبہ اور چھوٹے کاروباری افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ درج کیا گيا ہے۔

بھارت میں حکومتی ادارے ‘نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو’ (این سی آر بی) نے جو نئی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق سن 2019 کے مقابلے میں 2020 میں ریکارڈ سطح پر خودکشیوں سے اموات میں دس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 1967کے بعد پہلی بار خودکشی کے ذریعے اموات میں اتنا بڑا اضافہ درج کیا گيا ہے۔

این سی آر بی مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والا ادارہ ہے، جو سالانہ حادثات اور خودکشی سے ہونے والی اموات کا ریکارڈ رکھنے کے ساتھ ہی اس کے اعداد و شمار بھی جاری کرتا ہے۔

نئی رپورٹ جنوری 2020 سے دسمبر کے دوران ہونے والی خودکشیوں کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جہاں خودکشی سے ہونے والی اموات میں دس فیصد کا اضافہ ہوا، وہیں سڑک پر ہونے والے حادثات میں ہونے والی اموات میں تقریبا گیارہ فیصد کی کمی بھی درج کی گئی، کیونکہ ملک گیر سطح پر مہینوں کے لاک ڈاؤن سے جہاں شہروں میں ٹریفک برائے نام تھا، وہیں نقل و حمل کے دیگر ذرائع بھی تقریبا بند پڑے تھے۔

نئی رپورٹ 28 اکتوبر جمعرات کی شام کو جاری کی گئی تھی، جس کے مطابق خودکشی کر کے اپنی جان لینے والوں میں طلبہ، مزدوروں اور بے روز گار افراد کی یومیہ تعداد میں پہلے کے مقابلے کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ کورونا جیسی عالمی وبا اور اس کے سدباب کے لیے اٹھائے گئے اقدام نے بھارتی شہریوں پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب کیے۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس طلبہ کی خودکشی سے ہونے والی اموات میں اکیس فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ دیکھا گيا ہے، جبکہ بے روزگار ملازمین میں ساڑھے سولہ فیصد اور مزدروں میں یومیہ ساڑھے پندرہ فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ درج کیا گيا۔

کسانوں اور زرعی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں بھی خودکشی کے زیادہ تر واقعات کا رجحان برقرار رہا ہے اور ادارے کی رپورٹ کے مطابق، 2020 میں کاشتکاری سے وابستہ دس ہزار 677 افراد نے اپنی جانیں لے لیں، جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد دس ہزار 281 تھی۔

بھارت میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ 53 ہزار 52 لوگوں نے خود کشی کر کے اپنی جان لی۔ یعنی ہر روز تقریبا چار سو افراد نے خودکشی کی۔ سن 1967 کے بعد پہلی بار بھارت میں ایک برس کے دوران اتنی بڑی تعداد میں خودکشیاں ہو ئی ہیں۔

حالانکہ یہ وہ تعداد ہے جسے محکمہ پولیس نے خودکشی قرار دیا ہو اور پھر حکومتی اداروں نے بھی اسے تسلیم کر کے درج کر لیا، ورنہ ایک بڑی تعداد تو بغیر رپورٹ کے ہی رہ جاتی ہے۔

گزشتہ برس مردوں کی خودکشیوں کی کل تعداد میں سے سب سے زیادہ اموات روزانہ اجرت کمانے والوں مزدوروں کی تھیں اور 33 ہزار 164 مزدوروں نے خودکشی کر کے اپنی جان لے لی۔ اس کے بعد خود کا اپنا کام کرنے والے افراد کی تعداد 15 ہزار 372 ہے۔ تیسرے نمبر بے روز گار افراد کی خودکشیاں ہیں اور ایسے بارہ ہزار 893 افراد کی خود کشی سے موت ہو گئی۔

خواتین کے زمرے میں سب سے زیادہ 22 ہزار 372 گھریلو خواتین کی تھیں۔ اس کے بعد پانچ ہزار 559 طالبات نے خودکشی کر لی جبکہ ساڑھے چار ہزار یومیہ اجرت کمانے والی خواتین نے بھی خودکشی کر کے اپنی جان گنوا دی۔

رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر خودکشی کرنے والوں میں سے سات فیصد کی تعداد کسانوں اور زرعی مزدوروں کی ہے۔ سن 2020 کے دوران ملک بھر میں 5,579 کسانوں اور 5,098 زرعی مزدوروں نے خودکشی کی۔

خودکشی کے لحاظ سے بھارت کے بڑے شہروں میں دارالحکومت دہلی سر فہرست ہے جہاں گزشتہ برس تین ہزار 25 افراد نے خود کشی کر کے اپنی جانیں لے لیں۔ دوسرے نمبر پر جنوبی شہر چنئی ہے جہاں تقریبا ڈھائی ہزار افراد نے خودکشیاں کیں۔ بنگلور تیسرے نمبر پر ہے جہاں تقریبا سوا دو ہزار افراد نے خودکشیاں کیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں نوجوانوں میں خود کشی کا ایک اہم سبب ذہنی امراض ہیں۔ ماہرنفسیات اور فورٹس ہیلتھ کیئر ہسپتال میں مینٹل ہیلتھ شعبہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سمیر پاریکھ کا کہنا ہے کہ بھارت میں ذہنی امراض کو نظر انداز کیا جاتا ہے، “ہمیں ذہنی امراض کو بھی ایک طبی بیماری سمجھنا ہوگا اور ہمیں اسے نظر اندازکرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔”

ڈاکٹر سمیر پاریکھ کے مطابق صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی آبادی ڈپریشن اورگھبراہٹ جیسی ذہنی بیماریوں سے دوچار ہیں۔