بھارت کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنا چاہیے

Taliban

Taliban

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان اقتدار میں شراکت داری کے معاہدہ کے مدنظر بھارتی سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنا چاہیے۔

افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر ویویک کاٹجوکا کہنا ہے کہ بھارت کو افغانستان اور طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اسے طالبان اور دیگر سیاسی گروپوں کے ساتھ کھل کر بات کرنی چاہیے۔

ویویک کاٹجوکا کہنا تھا کہ موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال کے مدنظر بھارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ افغانستان میں تمام سیاسی گروپوں کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی کوشش کرے حتٰی کہ ان گروپوں سے بھی رابطہ قائم کرے جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پاکستان کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کاٹجو کے مطابق رابطے اور بات چیت کا یہ قطعی مطلب نہیں ہوتا ہے کہ آپ ان کے طریقہ کارکو بھی تسلیم کرتے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ماہ کے اوائل میں دہلی کے دورے پر آئے افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی ایک بھارتی اخبارکو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا، ”بھارت کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنا چاہیے اور اسے دہشت گردی کے حوالے سے اپنی فکر مندیو ں کے بارے میں براہ راست گفتگو بات کرنی چاہیے۔”

زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ بھارت نے افغانستان کی اقتصادی ترقی اور تعمیر نو میں زبردست رول ادا کیا ہے اس کے باوجود افغانستان کے حوالے سے بین الاقوامی سفارت کاری میں اسے کوئی مقام حاصل نہیں ہے اور امریکاچاہتا ہے کہ بھارت افغانستان میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرے۔

ویویک کاٹجو نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت کے سکیورٹی اور خارجہ پالیسی سازوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں معاہدے پر دستخط ہورہے تھے، جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک نئی صورت حال سامنے آنے والی ہے ایسے میں بھارت اس سے الگ کیوں رہا اور انہوں نے بھارت کے شریک ہونے پر غور کیوں نہیں کیا۔ کاٹجو کا کہنا ہے کہ اس بات سے کسی بھی صورت میں انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کا بھارت کے مفادات اور بالخصوص سکیورٹی کے خدشات پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

ماہرین کے مطابق گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران بھارت نے افغانستان کی اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کے حوالے سے بہت کچھ کیا لیکن افغانستان کے متعلق بین الاقوامی سفارت کاری میں اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکا۔

افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر کاٹجو کا مشورہ ہے، ”بھارت کو کم از کم اب اپنے سفارتی اقدامات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے طالبان اور ملک کے دیگر تمام سیاسی گروپوں کے ساتھ کھل کر بات کرنی چاہیے۔ بھارت کو اس حقیقت کا ادار ک کرنا چاہیے کہ افغانستان کے حوالے سے اسے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔”

دریں اثنا بھارت نے افغانستان میں صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے مابین اقتدار میں شراکت داری کے معاہدہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ شراکت داری کے معاہدہ اور قومی مصالحتی کونسل کے قیام سے افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کی کوششوں کو نیا حوصلہ ملے گا اور بیرونی اعانت یافتہ تشدد اور دہشت گردی ختم ہوسکے گی۔

بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ”بھارت کابل میں سیاسی قیادت کے مابین ہونے والے اس سیاسی معاہدہ کا خیر مقدم کرتا ہے …بھارت افغانستان میں اتحادی حکومت، قومی اتحاد، مضبوط اداروں، آئینی احکامات، سماج کے تمام طبقات کے حقوق کو یقینی بنانے اور ملک کی علاقائی سالمیت کی مستقل حمایت کرتا ہے۔” اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”افغانستان میں جاری تشدد اور دہشت گردی انتہائی تشویش کا موجب ہے اور بھارت فوراً جنگ بندی اور کورونا وائرس سے متاثرین کی مدد کی اپیل کرتا ہے۔”

خیال رہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہوئے معاہدے کے مطابق اشرف غنی صدر کے عہدے پر برقرار رہیں گے جب کہ عبداللہ عبداللہ کی جماعت کو نئی ملکی انتظامیہ میں 50 فیصد حصہ ملے گا۔ ان میں افغان حکومتی وزارتوں کے علاوہ صوبائی سطح پر کام کرنے والے خودمختار اور غیر جانبدار ڈائریکٹوریٹس کے سربراہان کے عہدے شامل ہیں۔ عبداللہ عبداللہ اس اعلٰی قومی مصالحتی کونسل کی قیادت کریں گے جس کے فرائض میں سے اہم ترین طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے ذریعہ ملک میں قیام امن کو یقینی بنانا ہے۔