بھارت: یوپی اسمبلی انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ

India Elections

India Elections

اترپردیش (اصل میڈیا ڈیسک) اترپردیش اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت جن گیارہ اضلاع کی اٹھاون سیٹوں پر آج پولنگ ہو رہی ہے وہاں پچھلے الیکشن میں بی جے پی نے تریپن سیٹیں حاصل کی تھی۔ تاہم سابقہ الیکشن کے برخلاف نتائج کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

بھارت میں سیاسی لحاظ سے سب سے اہم ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت 403 اسمبلی سیٹوں میں سے 58 کے لیے جمعرات 10 فروری کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 58 میں سے 53 سیٹیں جیت لی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان سیٹوں پر اپوزیشن سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل اتحاد سے اس کا براہ راست مقابلہ ہے۔ بعض حلقوں میں بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے امیدواروں نے بھی مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔

جن اضلاع میں پہلے مرحلے کے تحت ووٹ ڈالے جارہے ہیں انہیں “گنا بیلٹ” کہا جاتا ہے۔ گنے کے کسانوں کے بہت سارے مسائل ہیں۔ موجودہ بی جے پی حکومت نے ان کی شکایتوں کو دور کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن کسان رہنماوں کا کہنا ہے کہ تقریباً پانچ برس گزر جانے کے باوجود بیشتر مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں۔ کسانوں کے احتجاج نے بی جے پی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا اور انہیں منانے کے لیے اس نے مختلف حربے اپنائے۔

بی جے پی کی پریشانیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ جیسے سینیئر پارٹی رہنما نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے۔
حکمراں بی جے پی کو اس مرتبہ سخت مقابلے کا سامنا ہے

حکمراں بی جے پی کو اس مرتبہ سخت مقابلے کا سامنا ہے
جناح اور پاکستان کا بھی سہارا

بی جے پی نے بالخصوص ہندو ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اس مرتبہ بھی بانی پاکستان محمد علی جناح اور پاکستان کا خوب استعمال کیا۔ یوں بھی بھارت میں کوئی الیکشن جناح اور پاکستان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

بی جے پی نے کیرانہ قصبے سے سن 2017 سے قبل (جب یوگی حکومت اقتدار میں آئی تھی) ہندووں کے مبینہ نقل مکانی کے واقعات سنا کر بھی ووٹروں سے قوم پرست ہندو جماعت کے لیے حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی صرف اقتدار کے لیے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

کیرانہ کے ایک مقامی باشندے گلفام مدنی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، “کچھ لوگوں نے ووٹ کے لالچ میں اس قصبے کو بدنام کر دیا جبکہ یہاں ہندو اور مسلمان ہمیشہ بھائی چارے کے ساتھ رہے ہیں۔ لوگوں نے نقل مکانی روزگار کی وجہ سے کی اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے جھوٹی افواہیں پھیلائیں کہ ہندو مسلمانوں کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ کر جارہے ہیں حالانکہ گھر چھوڑ کر جانے والوں میں مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی۔”
وزیراعظم مودی کے انٹرویو پر سوال

پولنگ شروع ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیا جسے تقریباً تما ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا۔ 70 منٹ کے اس طویل انٹرویو کو نشر کیے جانے سے قبل حکمراں جماعت بی جے پی نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی۔

انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے بی جے پی کی تاریخ اور اقتدار تک پہنچنے کی کہانی سے لے کر مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم اس انٹرویو کو نشرکیے جانے کے وقت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے اسے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کا درپردہ طریقہ قرار دیا۔

سینیئر صحافی سواتی چترویدی کا کہنا تھا کہ یہ انٹرویو مودی کا مونولاگ جیسا لگتا ہے۔ ایک دوسرے صحافی نکھل واگلے نے اسے انتخابی ضابطہ اخلاق کے ساتھ مذاق قرار دیا۔ سیاسی تجزیہ کار اور صحافی اوما شنکر نے ٹوئٹ کیا،”

اترپردیش اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت جن گیارہ اضلاع کی اٹھاون سیٹوں پر آج پولنگ ہو رہی ہے وہاں پچھلے الیکشن میں بی جے پی نے تریپن سیٹیں حاصل کی تھی۔ تاہم سابقہ الیکشن کے برخلاف نتائج کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

بھارت میں سیاسی لحاظ سے سب سے اہم ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت 403 اسمبلی سیٹوں میں سے 58 کے لیے جمعرات 10 فروری کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 58 میں سے 53 سیٹیں جیت لی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان سیٹوں پر اپوزیشن سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل اتحاد سے اس کا براہ راست مقابلہ ہے۔ بعض حلقوں میں بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے امیدواروں نے بھی مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔

جن اضلاع میں پہلے مرحلے کے تحت ووٹ ڈالے جارہے ہیں انہیں “گنا بیلٹ” کہا جاتا ہے۔ گنے کے کسانوں کے بہت سارے مسائل ہیں۔ موجودہ بی جے پی حکومت نے ان کی شکایتوں کو دور کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن کسان رہنماوں کا کہنا ہے کہ تقریباً پانچ برس گزر جانے کے باوجود بیشتر مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں۔ کسانوں کے احتجاج نے بی جے پی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا اور انہیں منانے کے لیے اس نے مختلف حربے اپنائے۔

بی جے پی کی پریشانیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ جیسے سینیئر پارٹی رہنما نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے۔

بی جے پی نے بالخصوص ہندو ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اس مرتبہ بھی بانی پاکستان محمد علی جناح اور پاکستان کا خوب استعمال کیا۔ یوں بھی بھارت میں کوئی الیکشن جناح اور پاکستان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

بی جے پی نے کیرانہ قصبے سے سن 2017 سے قبل (جب یوگی حکومت اقتدار میں آئی تھی) ہندووں کے مبینہ نقل مکانی کے واقعات سنا کر بھی ووٹروں سے قوم پرست ہندو جماعت کے لیے حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی صرف اقتدار کے لیے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

کیرانہ کے ایک مقامی باشندے گلفام مدنی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، “کچھ لوگوں نے ووٹ کے لالچ میں اس قصبے کو بدنام کر دیا جبکہ یہاں ہندو اور مسلمان ہمیشہ بھائی چارے کے ساتھ رہے ہیں۔ لوگوں نے نقل مکانی روزگار کی وجہ سے کی اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے جھوٹی افواہیں پھیلائیں کہ ہندو مسلمانوں کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ کر جارہے ہیں حالانکہ گھر چھوڑ کر جانے والوں میں مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی۔”
وزیراعظم مودی کے انٹرویو پر سوال

پولنگ شروع ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیا جسے تقریباً تما ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا۔ 70 منٹ کے اس طویل انٹرویو کو نشر کیے جانے سے قبل حکمراں جماعت بی جے پی نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی۔

انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے بی جے پی کی تاریخ اور اقتدار تک پہنچنے کی کہانی سے لے کر مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم اس انٹرویو کو نشرکیے جانے کے وقت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے اسے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کا درپردہ طریقہ قرار دیا۔

سینیئر صحافی سواتی چترویدی کا کہنا تھا کہ یہ انٹرویو مودی کا مونولاگ جیسا لگتا ہے۔ ایک دوسرے صحافی نکھل واگلے نے اسے انتخابی ضابطہ اخلاق کے ساتھ مذاق قرار دیا۔ سیاسی تجزیہ کار اور صحافی اوما شنکر نے ٹوئٹ کیا،”

وزیر اعظم مودی نے اپنے انٹرویو میں گمراہ لفظ کا استعمال بی جے پی کی شکست کے حوالے سے کیا کہ جہاں ہارتے ہیں وہاں ہم جائزہ لیتے ہیں کہ سامنے والا گمراہ کرنے میں کامیاب کیو ں ہوا۔ گویا 2017 میں پنجاب کی عوام گمراہ ہوئی؟ یہ بھارت کے ووٹروں کی سمجھ بوجھ پر سوال ہے اور انتہائی غیر جمہوری بیان ہے۔ ”

اس انٹرویو میں مودی جہاں اترپردیش کے انتخابات سے خود کو دور رکھتے ہوئے نظر آئے وہیں اسمبلی انتخابات کے نتائج کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے کندھوں پرڈالتے ہوئے دکھائی دیے۔ سیاسی تجزیہ کار اس بیان میں مختلف معنی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

متعدد سروے سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ حکمراں بی جے پی کو اس مرتبہ اترپردیش میں شاید اتنی سیٹیں نہیں ملیں گی جس کی بنیاد پر وہ اپنے بل بوتے حکومت بناسکے۔
یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو

مودی نے اپنے انٹرویو میں یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اور کانگریس رہنما راہول گاندھی کا ذکر”دو لڑکوں ” کے طور پر کیا۔

وزیر اعظم مودی کے الفاظ تھے، “دو لڑکوں کا یہ کھیل ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں ان کا گھمنڈ اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے گجرات کے ‘دو گدھے’ جیسے الفاظ استعمال کیے تھے، لیکن یوپی نے انہیں سبق سکھا دیا۔”

تجزیہ کار اسے مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عجب بات ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ایک شخص کسی سابق وزیر اعلیٰ کو ‘لڑکے’ کہہ کر مخاطب کرے۔