زخمِ دل بھرتا نہیں رستا ہے تازہ لہو

Broken Heart

Broken Heart

تحریر : لقمان اسد
جمہوریت پر یقین رکھنے والی تمام تر سیاسی جماعتوں کو جس طرح جمہوریت کی بقاء کی طکر ہے اس طرح ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کو عوام کی فلاح، بہتری، صحت تعلیم اور بے روزگاری ایسے مسائل کو حل کرنے کیلئے بھی فکر مند ہونا چاہیے جبکہ ہمارے یہاں یہ رونا تو پوری شدومد سے رویا جاتا ہے کہ جی جمہوری حکومتوں کو وقت پورا نہیں کرنے دیا جاتا، آمریت نے پاکستان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ بلاشبہ یہ بات بھی یقیناً شک وشبہ سے بالا ہے کہ آمریت نے وطن عزیز کی پیٹھ میں میں ایسے چھرے گھونپے کہ وہ زخم بھرتے نہیں بھرے گویا زخم دِل بھرتا نہیں رستا ہے تازہ لہو
لیکن حیرت اسوقت ہوتی ہے کہ جب جمہوری حکومت ہو اور اسوقت بھی آمرانہ روش پر معاملات چلائے جاتے ہوں۔

ملک میں ماحول ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہو۔ عدالتیں عام آدمی کیلئے نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ کیلئے کام کرتی ہوں۔ وزیروں، مشیروں کی موجیں ہی موجیں ہوں،وہ جو مرضی کریں، انصاف سے کھیل کھیلتے رہیں۔ قومی خزانہ پرہاتھ جناب کرتے رہیں انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔نہ پارٹی لیڈر شپ نہ اپوزیشن نہ احتساب سیل اور نہ کوئی عدالت۔

پارٹی لیڈر شپ کیوں پوچھے؟ کیا خود پارٹی لیڈر شپ جمہوری اقتدار کے دنوں میں ناجائز اختیارات کے استعمال سے لیکر ہر طرح کے فوائد نہیں سمیٹتی انکے چاچے، مامے، پوتے، نواسے، بھتیجے اور بھانجے سب موج میلہ کرتے ہیں، کسی کو کمپنیاں رجسٹرڈ کراکے پھر بھاری ٹھیکے انہی کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں، تھانوں پر انکا مکمل ہولڈ علاقہ میں بھی کسی ایرے غیرے کو پرمارنے کی انکی اجازت کے بغیر کسی کو جرأت نہیں ہوتی۔

Supreme Court

Supreme Court

کوئی انکے جائز ناجائز فیصلوں کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی جرأت کرنے کی غلطی کرتا ہے تو پھر اسے سبق بھی اسی حساب سے سکھادیا جاتا ہے کہ یا تو وہ پھر شاہی جمہوریت کی مرکزی آمریت سے لیکر علاقائی آمریت تک غلامی کرے گا یا پھر اسے کسی کھاتے کا نہ چھوڑا جائیگا۔مثلاًسید سجاد علی شاہ جو اُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے انصاف کے مندر پر جمہورییوں نے جس طرح اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ ہلہ بولا جمہوریت کے چہرے پر وہ آج بھی سیا ہ داغ ہے ۔جمہوریت کی بقاء جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوریت کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوری ماحول کو ساز گار بنائے جانے کیلئے بھی ااقدامات اٹھائیں۔

یہ کونسی جمہوری روایات ہیں کہ اگرشخصی اقتدار خطرے میں ہو تو ایک ماہ تک پارلیمنٹ کا مسلسل اجلاس بلایا جاتا رہے اور اگر جمہورکی گود یں بھوک ۔پیاس اورا فلاس سے خالی ہوتی رہیں اور تھر کے صحرا میں ناچتی ہوئی بھوک نے جمہور کی دہلیزں پر پنجے گاڑھ رکھے ہوں تو کوئی بھی پارلیمنٹیرین عوام کی طاقت سے وجود میں آنے والے فلور پر آواز اُٹھانا اپنی توہین تصور کرتا ہو تو ایسی جمہوریت کو آمریت سے بد تر نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔پوزیشن عوام کو درپیش مسائل کے حل پر حکومت وقت کی توجہ دلاتی ہیمگر یہاںبا ری کی خاطراپوزیشن لیڈر کا کردار نظر ہی نہیں آتا سرامایہ دار حکومت تو ویسے بھی دوسرے اہم مشاغل میں مصروف نظر آتی ہے اگر جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں واقعتاً وطن عزیز میں جمہوریت کی بقاء کیلئے مخلص ہیں تو انہیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ انکے رویے آمریت سے ہٹ کر ہیں۔

انہیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ عام آدمی کیلئے آمریت کے نخطہ نظرسے ہٹ کر سوچتے ہیں۔ جمہوریت کی بقاء اور مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ تھانہ کلچر کو محض نعروں کی حدتک نہیں بلکہ عملاً تبدیل کرنے کی ٹھانی جائے، عدالتوں کی آزادی الیکشن کمیشن کی آزادی سستے اور فوری انصاف کیلئے بھی کام کو تیز کرنے پر مکمل توجہ دینا چاہیے۔ وگرنہ لوگ آمریت سے بیزار ہیں تو دھیرے دھیرے اس طرح کے نام نہاد جمہوری نظام سے بھی بیزار ہوتے چلے جائیں گے۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر : لقمان اسد