اسلام کی پہلی جنگ یوم الفرقان

Ghazwa Badar

Ghazwa Badar

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

جمعة المبارک 17 رمضان المبارک، کے دن جنگ بدر کی ابتدائ ہوئی۔”بدر” ایک گاؤں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریباً اسی (80) میل کے فاصلے پر ہے۔ جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضور سید عالم ۖ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔

۔ حضور نبی کریم ۖ کو مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب میں نہایت جانثارانہ وفدایانہ تقریریں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (خزرج کے سردار) نے عرض کی کہ ”یا رسول اللہ ۖ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو ” ہم سمندر میں کودنے کو تیار ہیں”۔حضرت مقداد نے عرض کیا:
”ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔”
اور آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ”۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں….پھر آپ ۖ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کا فر قتل ہوگا۔ آپ ۖ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کامحل قتل بتادیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضورۖ نے فرمایاتھا، وہ کافر وہاں ہی قتل ہوا۔(مشکوٰة/مدارج النبوت)

٭ حضور سید عالمۖ 12رمضان المبارک 2 ہجری کو اپنے تین سو تیرہ (313) جانبازو جا نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپ ۖ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپ ۖنے جیش اسلام کا جائزہ لیا اور جواس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص ایک کم سن سپاہی بھی شامل تھے، انہیں جب واپسی کیلئے کہا گیا تو وہ روپڑے، حضور ۖ نے ان کا یہ جذبہ جہادوشوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرمادی۔ لشکر اسلام کی کل تعداد 313 تھی، جس میں سے 60 مہاجرین او ر 253 انصار تھے۔

مومنین کا لشکر 16رمضان المبارک ،جمعرات 2 ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔٭ مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے سازوسامان کے ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر تھا۔ سو سواروں کا رسالہ تھا۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا،اپنی اس طاغوتی فوج کا ( جنگی فولادی سازوسامان سے لیس تھے )سپہ سالار بنایاگیا تھا۔

17 رمضان المبارک کی مبارک شب تھی، تمام مجاہدینِ اسلام آرام کر رہے تھے جبکہ حضور رحمت دو عالمۖ نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری صبح کو نماز فجر کیلئے تمام سر فروشان اسلام مجاہدین کو بیدارکیااور نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن مجید کی”آیاتِ جہاد” تلاوت فرما کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز خطاب فرما کر مجاہدینِ اسلام کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش وجذبہ کا سمند ر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد ازجلد جنگ کیلئے تیار ہونے لگے۔

٭ حضور نبی کریم ۖ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپ ۖ مجاہدین کے صفیں قائم فرمارہے تھے۔ ”مہاجرین” کا علم وپرچم حضرت مصعب بن عمیر کو، ”خزرج” کے علمبردار حباب بن منذر اور ”اوس” کے علمبردار سعد بن معاذ مقرر فرمائے۔چنانچہ لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے…. ایسا دل کش نظارہ کبھی زمین و آسمان نے نہیں دیکھا تھا کہ: ایک طرف وہ مشرکین تھے جو سر سے لے کر پاؤں تک تکبر و غرور سے بھر پور تھے ….اور دوسری طرف وہ مومنین کامل تھے، جن کے دل ایمان و ایقان کے نور سے روشن تھے….وہ مومنین تھے جو چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور پہاڑوں سے زیادہ بلند عزائم رکھتے تھیجن کے پاس صرف اور صرف دو گھوڑے،چھ زر ہیں اور آٹھ شمشیریں تھیں….وہ مومنین تھے، جو دنیا بھر کی تقدیر پلٹنے آئے تھے۔

کھڑے تھے اس طرف سب نفس و شیطان کے بندے
صفیں باندھے کھڑے تھے اس طرف رحمان کے بندے

٭ حضور سید عالمۖ نے میدانِ بدر میں اپنے جانثار و جانباز اور وفادار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سمانی کو بھی دیکھا تو اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر بارگاہِ خداوندی میں یوں التجاء کی: ”اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما، اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا”۔(صحیح بخاری۔ صحیح مسلم، جامع ترمذی۔ مسند امام احمد)
٭ حضور سرور دو عالمۖ کچھ اس طرح خشوع وخضوع سے دعائکررہے تھے کہ آپ ۖ کی چادر مبارک آپ کے دوش اقدس سے گرگئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر مبارک اٹھا کر آپ ۖ کے کاندھے مبارک پر ڈال دی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ۖ! اب بس کیجئے، اللہ تعالیٰ نے جو فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پورا فرمائے گا۔(البدایہ والنہایہ)
٭ مورخین اس معرکہ کو ”غزوئہ بدر الکبریٰ” اور غزوئہ بدرالعظمٰی” کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لاریب اور لا فانی کلام قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو ”یوم الفرقان” (یعنی حق و باطل میں درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر فر مایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیر و شر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکارا ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتہ چل گیاکہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون ہے۔ ٭قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے”اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس (چیز) پر جو ہم نے اپنے (محبوبۖ) بندے پر نازل فرمائی، جس دن دو لشکر مقابل (آمنے سامنے) ہوئے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے”۔(سورة الانفال:آیت٤١)

٭فرزندانِ توحید کی سر فروشی:دستور عرب کے مطابق جب جنگ کی ابتدائہوئی تو مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدانِ کارِ زار میں نکلا۔ مبارزت طلب کرنے لگا تو لشکر اسلام میں سے حضرت امیر حمزہ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم، عتبہ،ولید اور شیبہ کے مقابل ہو ئے اوریوں دست بہ دست جنگ شروع ہوئی توحضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کردیا۔ جب کہ حضرت علی حیدر کراررضی اللہ عنہ نے ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کیا، جب کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہو گئے، یہ دیکھ کر شیر خدا حضرت علی المرتضی آگے بڑھے اور اپنی ضربِ حیدری کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ بھی کو جہنم رسید کردیا۔ تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں زمین پر ڈھیر پرہو گئیں۔

٭ پھر عام لڑائی شروع ہوگئی تو حضورکرمۖ نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی اٹھائی اور لشکر کفار کی طرف پھینکی اور فر مایا”شاھت الوجوہ” ”برے ہوگئے یہ چہرے”۔ چنانچہ کوئی کافر ایسانہیںبچا جس کی آنکھوں اور ناک وغیرہ میں ان سنگریزوں سے کوئی چیز نہ پہنچی ہو۔یہ سنگریزے نہیںتھے بلکہ اسلامی”ایٹم بم” تھے کہ جو ہر ایک کافرفوجی کو لگے اور ان کی قوت و طاقت بالکل ٹوٹ گئی اور لشکر کفار میں بھگدڑ مچ گئی۔

٭ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کنکریوں کا مارنا یوں بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اور (اے حبیبۖ!) آپ نے (حقیقتاً وہ خاک) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (خاک) پھینکی تھی، لیکن وہ (خاک) اللہ تعالیٰ نے پھینکی”۔۔(سورة الانفال: 17)
آخر میں اتنا عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے ٭ مسلمانوں کی قلیل تعدار کو کفار کو بڑھا کر دیکھایا٭کفار جنگجوں نے پہلے پہنچ کر مضبوط مٹی والے میدان کا انتخاب کیا اور مسلمانوں کو ریت والہ میدا میسر آیا، کفار نے پانی کی جگہ ڈیرہ لگایا مسلمانوں والی جگہ پانی نہ تھا۔ کفار نے کامیابی کو یقینی سمجھتے ہوئے شراب و کباب کی محفل سجائی اور رات بھر جاگتے رہے۔٭ اللہ کی مدد سے بارش نے کفار کے میدان کو دلدل بنا دیا مسلمانوں نے ریتلی زمین ہونے کی وجہ سے آرام اور پینے کا پانی حاصل کیا ۔وغیرہ وغیرہ ! غزوہ بدر رمضان میں ہوا ثابت ہوا روزے کی حالت میں جو کمزوری محسوس ہوتی وہ کمزوری نہیں طاقت ہوتی ہے۔ ٭اللہ نے مدد کا وعدہ فرمایا پھر بھی نبی کریم ۖ نے ساری رات دعائیں کی۔ ثابت ہوا دعا وہ چیز ہے جو کسی حالت میں نہ چھوڑی جائے۔ اسی لئے دعا کومومن کا ہتھیار کہا گیا ہے۔ یااللہ ہمیں عظیم الشان سپاسلار محسن انسانیت حضرت محمد ۖ کے نقشہ قدم پر چلنے اور غزوہ بدر کی طرح مسلمانوں کی کفار کے مقابے میں مدد فرما مین۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا