قیامت کا دن مقرر نہیں مگر…!!

Media

Media

2012 میں کسی مایا تہذیب یا کوئی مایاوی کیلنڈر کی کسی پشین گوئی کے حوالے سے مسلسل، خبریں اور تبصرے میڈیا میں آتے رہے کہ 21 دسمبر کو قیامت آ جائے گی، مغربی دنیا میں اس حوالے سے خاصی تشویش پائی گئی، مجھ جیسے عام آدمی کو اِس بارے نہ تو کوئی خبر ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تشویش کہ 21 دسمبر کو قیامت آئے گی بھلے 21 کی بجائے 20 کو آجاتی اور یہ تو ایک اٹل حقیقت ہے جسے ایک روز وارد ہونا ہے لیکن الہامی کتب ایسے کسی وقت،دن اور سال بارے خاموش ہیں، نشانیاں ضرور بتائی گئی ہیں، توریت نہ صرف الہامی کتاب ہے جسے دنیا کی اکثریت تسلیم کرتی بلکہ ایک مستند تاریخ بھی ہے جن واقعات کا زکر درج، گزری صدی میں ماہرین آثار ِ قدیمہ نے بعض شواہد تلاش کئے ہیں، مگر یہاں کسی ماہ و سال اور وقت کا ذکر نہیںکہ قیامت کب وقوع میں آئے گی۔

البتہ ایسے اشارے موجود ہیں جن سے قیاس آرائی کی جا سکتی ہے، ،توریت کی پہلی کتاب کے پہلے تین ابواب تخلیق کائنات پر مشتمل ہیں، جن میں چھ دنوں میں مرحلہ وار وہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے خالق کائنا ت نے خلق کیا، وہاں 6 دن کہا گیا مگر ان دنوں کے دورانئے کا کوئی پیمانہ نہیں کیا یہ دن آج کے دن کی طرح 24 گھنٹے کا تھا ؟ قابلِ غور و فکر ہے ،میرے نزدیک یہ چھ دن چھ زمانے یا چھ عالم،یا چھ عہد ہو سکتے ہیں، یا پھر،90 ،زبور آیت 3 ،اور 4 ، میں موسیٰ کی دعا میں لکھا ہے تو انسان کو پھر خاک میں ملا دیتا ہے اور فرماتا ہے ائے بنی آدم! لوٹ آؤ۔ کیونکہ تیری نظر میں ہزار برس ایسے ہیں جیسے کل کادن جو گزر گیا اور جیسے رات کا ایک پہر ،یہا ں رات کا ایک پہر بھی کہا گیا، یہ ہزار برس ایک پہر کے برابر بھی ہو سکتے ہیں۔

اب یہاں بھی ایک دن کو ہزار برس کے برابر کہا۔ ایک اور مقام پر بھی ایک دن کو ہزار برس کے برابر لکھا گیا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو تخلیق کائنات کے چھ دن چھ ہزار سال یا چھ زمانے، ہیں اور اِس طرح اِس کی عمر بھی چھ ہزار برس ہو گی دینی تاریخ اور تحقیق کے ماہرین نے سن دو ہزار عیسوی کو چھ ہزار سال پر محیط کیا ہے، اور یہ 21 ویں صدی سات ہزارواں دور یا ساتواں دن ،اِس ساتویں دن کے بارے میں ،توریت کی پہلی کتاب کے دوسرے باب کی آیت 3،میں اِس طرح رقم ہے۔ اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اُسے مقدس ٹہرایا، اِس لئے کہ اُس میں خُدا اپنے سب کاموں سے جو بنایا اور خلق کیا سے فارغ ہؤ۔اشارے تو بہت ہیں مگر یہاں بات دنیا کے خاتمے یا قیامت کی، یوحنا عارف کا مکاشفہ، اِ س کے 12 ویں باب کی آیت 7 میں میں لکھا ہے کہ آسمان پر ،مقرب فرشتہ میکائیل اور اُس کے ساتھیوں کی ابلیس اور اُس کے فرشتوں کے ساتھ لڑائی ہوئی جس میں ابلیس کو شکست ہوئی، اور اُسے اُس کے ساتھیوں سمیت زمین پر گرا دیا جاتا ہے۔

Sky

Sky

ایک اور آواز (12) سنائی دی اے آسمان کے رہنے والو خوشی مناؤ کہ تمہارا دشمن ابلیس زمین پر گرا دیا گیا ہے ،اور اے خشکی اور تری تم پر افسوس ! کہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اتر کر آیا ہے اِس لئے کہ جانتا ہے میرا تھوڑا سا وقت باقی ہے ..۔اِس وقت ابلیس غضبناک ہوکر زمین پر دندنا رہا،ہر طرف موت کا رقص جاری جس فرد وبشر پر موت واقع ہو اُس پر قیامت وارد ہو تی ہے، لیکن قیامت کہ ایک معنی یہ بھی ہیں یوم آخر جب زمین لپیٹ دی جائے گی توریت کی پہلی کتاب پیدائش کے باب 7 ، تا 9،میں زمین پر پانی کے طوفان کا ذکر ہے، سمندر کے سوتے پھوٹ پڑے آسمان پر سے 40 دن پانی برستا رہا کہ اُس وقت زمین پر بدی اپنی انتہا کو پہنچ چکی، تب خدا نے تمام مخلوق کو پانی کے اس طوفان سے نیست و نابود کر دیا اور طوفان کے بعد حضرت نوح کے ساتھ ایک عہد کیا جس کا نشان آج بھی بارش کے بعد بادلوں میں نظر آتا ہے جسے قوس و قزح کا نام دیا گیا۔

مگر یہ وہی نشان جسے بنی آدم کے ساتھ رب تعالےٰ نے اپنا عہد مقرر کیا ،کہ پھر سب جاندار پانی کے طوفان سے ہلاک نہ ہونگے اور نہ کبھی زمین کو نیست کرنے کے لئے طوفان آئے گا، اِس لفظ گا اور گے کا مطلب یہ بھی ہے کہ سب جاندا ہلاک ہونگے زمین تباہ ہوگی مگر پانی سے نہیں … ، سو اب اُس نے دنیا کو تباہ کرنے کا کام آج کے آدم ذاد کے سپرد کر دیا جسے عقل و فہم عطا کیا اور اُس نے دنیا کو نیست و نابود کرنے کا سامان بھی تیار کر لیا ہے جسکا تجربہ امریکہ نے 1945 میں جاپان کے دو شہروں میں کیا پلک جھپکتے لاکھوں انسان ہلاک ہو گئے، آج کے یہ ہتھیار اُس سے کئی گنا طاقتور ہیں، اِس کے بعد ایٹمی ہتھیا ربنانے کی ملکوں میں دوڑ لگ گئی، اپنے ملک ہی کو دیکھیں، کروڑوں انسانوں کو دو وقت کی مناسب خوراک نہیں ملتی، یہ بجلی صاف پانی وغیرہ ثانوی ہیں مگر قوم و ملک کے لئے یہ قابلِ فخر ہے کہ دنیا کو تباہ کرنے کے سامان میں خود کفیل ہیں،بڑے تفاخر سے کہا جاتا ہے۔

پاکستان ترقی پذیر ملک نہیں بلکہ ایٹمی طاقت ہے، صدی کے شروع میں امریکہ میں جو واقع ہوأ جس پر آج تک مختلف پہلوؤں سے تبصرے کئے گئے، اور میں اپنے ملک میں ہونے والے ایسے اندو ہناک واقعات پر جب غور کرتا ہوں کہ یہ سب کیوں ؟یہ کون ہیں؟ کیا مقصد؟میرے پاس زریعہ تلاش و جستجو یہ لفظ کیوں؟ اسی کیوں کی رانمائی میں یہاں تک پہنچا ہوں کہ یہ سب کسی ماورائی اندیکھی طاقت کے ہاتھوں کٹ پتلی ہیں، اور وہ نہیں جانتے کیا ؟ کیوں؟ اور کس لئے؟ یہ کر رہے ہیں، اپریل 2013 کو سوات میں مکرم شاہ پر بم حملہ کیا گیا۔ شبقدر میں امیدوار جب جلسے میں جا رہے تھے کہ انہیں بھی نشانہ بنایا گیا۔ پشاور میں غلام احمد بلور کی گاڑی پر خود کش حملہ ہوأ جس میں 15 افرد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے، اور چند دنوں کی خاموشی کے بعد کوئٹہ میں وومین یونیورسٹی کی بس میں خودکش حملہ جس میں 14 طالبات و ڈی سی سمیت 26 جاں بحق، زخمیوں کو بولان ہسپتال منتقل کیا جہاں دہشت گردوں نے حملہ کیا، 4 ، اہلکار اور 4 سٹاف نرسز سمیت گیارا جاں بحق ہوئے۔

قائد کی آخری رہائش گاہ زیارت پر حملہ جس نے ملک کی جڑوں کو ہلا دیا، اور ہنگو، پشاور کی مسجد نماز جمعہ پر حملہ مردان میںنماز جنازہ پر، نہتے کوہ پیماؤں کو قتل کرناان کا قصور کیا ؟ میں جب ایسے اندوہناک واقعات کی خبریں سنتا ہوں تو رواں رواںکانپ جاتا ہے یہ کیوں؟ کون کر رہا ہے؟ کیا مقصد ؟اب تک خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے 50 ہزارسے زائد پاکستانی اپنوں ہی کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ ایک وقت تھا جب امریکہ و سویت یونین آمنے سامنے وہی انگلیاں سُوِّچ پر مگر قدرت کو ابھی یہ وقت منظور نہ تھا اور …! اور اب وہی ماورائی قوت جس کے پروگرام میں دنیا کو نیست و نابود کرنا، امریکہ، القائدہ اور طالبان کو استعمال کر رہی، جو وقت مقرر پر محض چند ثانیوں میں قیامت برپا کر دے گی، طوفان نوح کے وقت ہر جاندار کو نیست کرنے میں 40 دن لگے اور اب شائد 40 سیکنڈ ہی میں سب کچھ نابود ہو جائے گا، اِس کے لئے کوئی تاریخ اور دن ماہ و سال کا تعین نہیں کیا گیا۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی
03054784601