انا کی تسکین

Justice

Justice

تحریر : طارق حسین بٹ شان

پاکستان میں کسی بھی حکمران کو خدا بنتے دیر نہیں لگتی۔وہ اقتدار کا زینہ چڑھتے ہی خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھنے لگ جاتا ہے اور اپنی ذات کو ہر قسم کی فہم و فراست کا محور قرار دینے لگ جاتا ہے۔اسے اپنے فیصلوں پر بڑا ناز ہوتا ہے اور وہ انھیں ریاستی امور کی بجا آوری کیلئے ناگزیر قرار دیتا ہے حالانکہ اس کے بڑے بڑے فیصلے قومی مفادات کے خلاف ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات کے حصار سے باہر نہیں نکلتا۔اسے خود ستائی کا مرض لاحق ہو جاتا ہے جو دور بینی سے محرومی کا باعث بنتا ہے۔اسے زعمِ باطل لا حق ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کا مسیحا ہے اور اس کا نزول خدائے بزرگ و بر تر کے کسی خصوصی فرمان کے تحت ظہور پذیر ہوا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایسا ہی تصور کرتا تھا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔اس کی چال ڈھال دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔اس کی بول چال اور انداز سے یوں لگتا تھا جیسے یہ کائنات اس کے بغیر حرکت کرنا بھول جائیگی۔وہ نہیں ہو گا تو ملکِ خدادا کے درو دیوار چیخ چیخ کر اسکی عظمت کی گواہی دیں گے۔عوام اس کے اقتدار کے محاسن گن گن کر تھک جائیں گے لیکن اس کے سنہرے دورِ حکومت کے محاسن ختم نہیں ہوں گے ۔ افغانستان میں امریکی حمائت کے اپنے فیصلہ کو وہ اپنی زندگی کا سب سے زیادہ دانشمندانہ فیصلہ قرار دیتا تھا حالانکہ اس کے اسی ایک فیصلہ نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ، ستر ہزار سے زیادہ لوگ دھشت گردی کی اس آگ کا ایندھن بنے تھے جو اس کے ایک غلط فیصلہ سے بڑھک اٹھی تھی ۔اس کے فیصلوں کے خلاف جو کوئی لب کشائی کی جسارت کرتا تھا اسے ملک بدر کر دیا جاتا تھا ۔اس نے بر ملا اعلان کر رکھا تھا کہ اس کے دورِ اقتدار میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف پاک سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکتے لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ پاکستان کے یہ دونوں قائدین اس کی کھلی آنکھوں کے سامنے پاک دھرتی پر اترے۔ ان کی وطن آمد جنرل پرویز مشرف کی طویل آمریت کے زوال کا نقطہِ آغاز تھا۔ قصرِ صدارت سے جنرل پرویز مشرف کا اخراج اگست ٢٠٠٨ کو تکمیل پذیر ہوا اور اس کے بعد باقی سب تاریخ ہے۔

حبیب جالب کا ایک شعر آمرانہ ذہنیت کا کما حقہ احاطہ کرتا ہے۔(تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا۔ اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا ۔ )

آج کل عمران خان بھی اپنے پیشرو کے نقشِ قدم پر محوِ سفر ہیں۔ان کی پرواز کا انداز جنرل پرویز مشرف سے بہت مشابہ ہے کیونکہ وہ بھی اپنے مخالفین کو زندہ رہنے کا حق دینے کو تیار نہیں ۔وہ بے لاگ احتساب کے حامی لیکن ان کے دور میں کرپشن کا گراف بلند ہوا ۔ اس کارِ خیر میں ان کے اپنے وزراء ملوث ہیں لیکن عمران خان کی بے بسی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں عددی کمزوری کے پیشِ نظر کرپٹ افراد کو وزارتوں سے فارغ نہیں کر سکتے ۔خسرو بختیار کا شوگر انکوائری رپورٹ میں نام آنے کے بعد ان کوبندی خانہ میں ڈالنے کی بجائے مزید ترقی مل گئی ہے اور انھیں ایک ایسی وزارت سونپی گئی ہے جس میں اگلا قومی بجٹ انھوں نے ہی پیش کرنا ہے ۔ کیسا کڑا احتساب ہے جو عمران خان کے ہاتھوں سر انجام پا رہا ہے؟ کیسا شفاف احتساب ہے جس کی زد میں خسرو بختیار آئے ہیں؟کیسا جان لیوا شکنجہ ہے جو ان کے گرد کسا گیا ہے؟یعنی جو سکینڈل میں ملوث پایا جائے اسے بلند تر مقام و مرتبہ سے نوازا جائے اور عوام کو لولی پاپ د یا جائے کہ کرپشن میں ملوث کسی کو چھوڑا نہیں جائیگا۔یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ناکام و نامراد ٹھہرے گی۔ رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ خسرو بختیار شوگر سکینڈل میں ملوث ہے لیکن عمران خان اس کے ماتھے پر ایمانداری کا سہرا سجانے پر بضد ہیں ۔

اپنے وزیروں کے سامنے تو پسپائی کا یہ عالم ہے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ان کے آہنی ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ میاں محمد نواز شریف، مریم نواز ،آصف علی زرداری،میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف ، خورشید شاہ۔فریال تالپور،احسن اقبال،مفتاح اسماعیل۔آغا سراج درانی،شاہد خاقان عباسی،رانا ثنا اللہء ،خواجہ سعد رفیق،فواد احمد فواد ا،احد چیمہ اور خواجہ سلمان رفیق جس طرح ریاستی جبر کا نشانہ بنے ہیں اس نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ عمران خان کی انتقامی سیاست اپنے زوروں پر ہے ۔ سیاسی دنیا کے ساتھ ساتھ میڈیا کی دنیا بھی ان دیکھی پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔میر شکیل الرحمن پچھلے کئی ہفتوں سے جس طرح پابندِ سلاسل ہیں اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی رسوائی ہو ری ہے۔عالمی ادارے،اقوامِ متحدہ،صحافی،وکلائ،علماء اور سیاستدان جس طرح میر شکیل الرحمن کو ضمیر کا قیدی قرار دے رہے ہیں اس سے حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔جو جھکتا نہیں ہے اسے زندانوں کی نذر کر دو خود بخود جھک جائیگا لیکن وہ جھنوں نے ماں کی گود سے ہی حریت و جانبازی کا دودھ پیا ہو انھیں کون جھکا سکتا ہے؟میر شکیل الرحمن کی حمائت میں نکلنے والے جلوس اور بھوک ہڑتالی کیمپ اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ صحافتی دنیا میر شکیل الر حمن کی عظیم صحافتی خدمات پر ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی جلد رہائی چاہتی ہے ۔

آج کے جدید دور میں جہاں آزادیوں کی کہکشاں کا راج ہے ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس کے مالک کو زنجیروںمیں جکڑنا کہاں کا انصاف ہے؟احتساب سے کسی کو مکر نہیں لیکن میزانِ عدل کا سیدھا رکھا جانا ضروری ہوتاہے۔ اپنے وزراء تو انکوائری رپورٹ آنے کے بعد بھی معصوم قرار پائیں لیکن مخالفین بغیر انکوائری کے زندانوں میں دھکیل دئے جائیں تو اسے ہی انصاف کا پلڑا جھکنا کہتے ہیں۔اقتدار تو ایک امانت ہے جسے گھر بدلنے کی عادت ہوتی ہے لیکن یہ سیدھا سا فلسفہ بھی حکمرانوں کی سمجھ سے ماوراء ہوتا ہے۔بے رحم اور منتقم المزاج حکمران جب اقتدار سے بے دخل ہوتے ہیں تو پھر ان کا ٹھکانہ کسی غیر ملک میں ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی مثال ہمارے سامنے ہے جھنیں بغاوت کے مقدمہ سے گلو خلاصی کیلئے وطن سے فرار ہونا پڑا حالانکہ ان کی رعونت سے زمین بھی کانپتی تھی ۔

میر شکیل الرحمن وزیرِ اعظم عمران خان کی ذاتی انا،انتقام اور ہٹ دھرمی کا شکار بنا ہوا ہے۔پاکستان کے سارے دانشور میر صاحب کی رہائی کیلئے یک زبان ہیں لیکن وہ ایک شخص جو اقتدار کی کرسی پر رونق افروز ہے وہ میر صاحب کو جھکانا چاہتا ہے اور میر صاحب فرشی سلام کرنے سے معذرت خواہ ہیں ۔ ایک جنگ ہے جو جھکنے اور جھکانے کے درمیان برپا ہے۔ نیب جس طرح حکومت کا آلہِ کار بنا ہوا ہے اس نے احتساب کے سارے نظام پر سوالیہ نشان کھڑے کر دئے ہیں۔ زندانیں صرف ان افراد کا مقدر بن رہی ہیں جو اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں۔کوئی بھی انسان جب اقتدار کی اندھی قوت کے نشہ کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر دوسروں کو زنجیریں پہنانے میں اسے ایک ان دیکھی راحت اور تسکین محسوس ہوتی ہے ۔

قوم اس وقت کورانا جیسے موذی مرض کا کرب سہہ رہی ہے لیکن حکمران احتساب کے نام پر اپنے مخالفین کی گردنیں ناپ کر خود کو انصاف پسند ظا ہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کسی شعبدہ بازی سے کم نہیں ہے۔قوتِ سماعت سے محروم حکمرانوں نے اپنے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کسی بھی انصاف پسند آواز کو سننے کیلئے تیار نہیں ۔ کوئی حد ہوتی ہے انتقام کی ،کوئی حد ہو تی ہے جبر کی، کوئی حد ہوتی ہے ڈھٹائی کی لیکن ہمارے حکمران ایسی حدوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔وہ ہر وہ قدم اٹھاتے ہیں جو ان کی ذاتی انا کی تسکین کا باعث ہو حالانکہ ذاتی انا کی تسکین انصاف کی دشمن ہوتی ہے۔،۔

Tariq Hussain Butt Shan

Tariq Hussain Butt Shan

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال