انصاف کا پتھر

 Saudi Arabia

Saudi Arabia

مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے والے اور مدینہ منورہ کی رونقیں ختم کرنے والے کافر لوگ پاکستان کی طرح سعودی عرب کی طرف بھی میلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ جب تک انصاف سعید شاہ جیسے لوگوں کو ملتا رہے گا میں سمجھتا ہوں اس ملک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔

قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھ دویہ جدہ ہے صبح کے سات بج چکے تھے رمضان ١٩٨٨ کی بات ہے جنرل موٹرز کی ایجینسی کے کاوئنٹر پر ایک پاکستانی کی ڈیوٹی سپروائزر کی تھی۔گرمیوں کے دنوں میں اس کی ڈیوٹی صبح سات بجے سے دو بجے تک تھی۔اس نے دیکھا کہ استقبالیے کے کونے میں ایک نوجوان ڈاٹا باندھے ہوئے سرخ خانے دار رومال میں منہ چھپائے بیٹھا ہے۔اسے کسی نے بتایا یہ شہزادہ ہے اور جس ریجن میں تم بیٹھے ہو اس کے گورنر کا بیٹا یا بھتیجا ہے۔لمبا تڑنگا ہشیار پاکستانی بڑے ادب سے اس کے پاس گیا اور کہا۔شہزادے اللہ آپ کی عمر دراز کرے حکم کریں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔اس نے کہا پاکستانی جوان مجھے اپنی گاڑی کا رنگ بدلنا ہے میں نے کل ہی سرمئی کیڈلاک خریدی ہے مجھے کلر اچھا نہیں لگا مجھے سرخ رنگ درکار ہے۔نوجوان چالاک تھا اس نے کہا شہزادے آپ تشریف رکھیں نو بجے شو روم کھلے گا آپ کو نئی گاڑی دے دی جائے گی۔وہ وہیں سو گیا۔نو بجے اور ڈیوٹی انچارج بدل گیا پاکستانی نے اپنے مصری ساتھی کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ کونے میں شہزادہ سویا ہوا ہے اسے گاڑی کا دوسرا رنگ چاہئیے براہ کرم اس کا خیال کرنا۔مصری نے اسے کہا یہاں آئے روز شہزادے آتے رہتے ہیں تم اپنا کام کرو میں سنبھال لوں گا۔پاکستانی اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ لوگوں کی گاڑیوں کی چیکینگ میں مصروف ہو گیا۔شہزادہ وہیں سویا رہا۔جاگنے پر اس نے مصری سے کہا کہ مجھے دوسرے رنگ کی گاڑی دو جس کے جواب میں اس نے کہا میرے پاس کوئی گاڑی نہیں سیلز میں چلے جائو۔

جدہ کے مدینہ روڈ کے اوپر کلو ٩ میں ایک بڑی ڈیلرشپ میں سب کچھ ہو رہا تھا لوگوں کی بڑی تعداد استقبالیے پر موجود تھی۔کونے میںبیٹھے شہزادے نے انگڑائی لی اور مصری کے سامنے کھڑا ہو گیا مجھے گاڑی دو اس نے معذرت کر لی اور شہزادہ غصے سے باہر نکل گیا۔وہ اٹھا اور اس نے اپنی گاڑی نکالنے کی کوشش کی۔اس دوران ایک اور پاکستانی وہیکل انسپکٹر چیچہ وطنی کا گورا چٹا سعید شاہ گاڑی چیک کرنے نکلا گیٹ پر چوکیدار نے اسے رکنے کو کہا اس لئے کہ سعودی شہزادہ ہارن سے ہاتھ نہیں اٹھا رہا تھا۔اس نے سعید شاہ سے کہا کہ گاڑی آگے نہ بڑھانا میں گیٹ پاس چیک کرنا چاہتا ہوں۔سعید شاہ رک گیا اور پھر ہوا کیا شہزادہ گاڑی سے اترا اور اس نے سعید شاہ کو تھپڑ جڑ دیا۔رمضان کے اس دن گرمی بھی بہت تھی۔سعید گاڑی سے اترا اور اس نے شہزادے کو مارنا شروع کر دیا۔ اس کے انچارج پاکستانی کو پتہ چلا اور کہا شاہ! یہ تم نے کیا کیا ہے جسے تم مار رہے ہو یہ شہزادہ ہے۔اس نے کہا اب مار چکا ہوں جو ہو گی دیکھا جائے گا۔پوری کمپنی میں سناٹہ چھا گیا تھا سعید شاہ کو ورکشاپ کے اندر بھیج دیا گیا۔اس کے سپروائزر نے کمپنی کے اونر کو فون کیا۔اتنے میں شہزادہ دوسری گاڑی سے پستول لے کر آ گیا۔اور اس نے سعید شاہ کو دور سے دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔اسی اثناء میں کمپنی کے مالک نے پولیس بلوا لی۔جو سعید شاہ اور شہزادے کو لے گئی۔ سب ڈر گئے فائرنگ سے پہلے شہزادے نے کمپنی کے شیشے توڑ دیے۔

ہوٹروں کی آوازوں کے شور میں شہزادہ اور سعید چلے گئے۔کمپنی کے لوگ ڈر گئے سہمے ہوئے لوگ دوسرے دن آئے تو سعید شاہ نوکری پر موجود تھا۔پولیس اسے لے گئی تھی۔مکہ کے گورنر نے پولیس کو کہا تھا مجھے انصاف چاہئے۔اور انصاف یہ ہوا کہ شہزادہ اور پاکستانی دونوں تھانے میں انچارج کے دفتر میں رہے شہزادے نے معافی مانگی اور طے یہ ہوا کہ وہ دوبارہ یہاں نہیں آئے گا بلکہ کمپنی اس کی گاڑی پک کرے گی۔اس کی خلاصی نہیں ہو رہی تھی۔پاکستانی سہمے ہوئے تھے ،عجیب و غریب باتیں کی جا رہی تھیں۔سعید شاہ کا سپروائزر ڈرا سہما تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا۔اسے اٹھا لیا جائے گا۔غائب کر دیا جائے گا۔سعید شاہ اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا اس نے کہا خدا کی قسم مجھے تھانے دار نے کہا ہے کہ اگر تم اسے معاف نہیں کرو گے تو اسے بھی بند کر دیا جائے گا اور جب تک صلح نہیں ہوتی شہزادہ باہر نہیں آئے گا۔اور اس نے کہا جائو میں معاف کرتا ہوں مگر مجھے جان کی امان چاہئیے پولیس کا کہنا تھا۔اللہ آپ کی جان سلامت رکھے اگر کچھ اور ہوا تو ہم ذمہ دار نہیں مگر اس کی طرف سے کچھ نہیں ہو گا۔

Pakistan

Pakistan

سعید شاہ اسی کمپنی میں کام کر رہا ہے اب اس کے ہاتھوں میں رعشہ ہے اس کا سپروائزر انجینئر افتخار چودھری ہے وہ کمپنی جس میں یہ سب کچھ ہوا سعودی عرب کی معروف کمپنی الجمیح ہے جو جنرل موٹرز کی سب سے بڑی ڈسٹریبیوٹر ہے۔مکہ کے گورنر مرحوم ماجد بن عبدالعزیز تھے۔دوستو! جو کچھ سعودی عرب کے بارے میں ہم سنتے ہیں وہ اصل میں ہے نہیں۔آج پاکستانی قونصل جنرل آفتاب کھوکھر سے ملاقات تھی سہیل علی خان پریس قونصل کے ساتھ چند گھنٹے گزارے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں انصاف موجود ہے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہم امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکستانی لوگ انگریزی تو فر فر بولتے ہیں عربی نہیں اور عربی سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے گونگے اور بہرے لوگ انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اس بات میں کتنا وزن ہے کہ سعودی عرب کے مالیاتی اداروں کے نگہبان پاکستانی ہیں بہت عرصے تک تو انور علی پاکستانی کے دستخط نوٹوں پر رہے اور ان کے گھروں میں بچیوں کی حفاظت پاکستانی ڈرائیوروں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔آفتاب کھوکھر بتا رہے تھے کہ سعودی ڈرائیور خود تسلیم کرتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھتے پاکستانیوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔٤٤٠٠ پاکستانیوں کی واپسی تیزی سے شروع ہے اور قونصل خانے میں طویل وقتی لاگو ہے۔میرے خیال میں ایک ایسی لابی ہے جو نہیں چاہتی کے سعودی عرب اور پاکستان کے مثالی تعلقات بر قرار رہیں۔ ڈیڑھ ملین ڈالر کی امداد کو نئے عنوان دیے جا رہے ہیں۔

دو ملین پاکستانی اس ملک میں امن چین سے رہ رہے ہیں۔وہ لوگ جو پاکستان کو ڈوبتا دیکھ کر خوش ہو رہے تھے انہیں ہی صدمہ پہنچا ہو گا پیٹ میں مروڑ اسی کے اٹھا ہو گا جو طالبان سے مذاکرات کا مخالف ہے امن کا دشمن ہے ۔بیس لاکھ پاکستانی اس امن و آشتی کے گہوارے ملک میں سکھ چین سے رہ رہے ہیں پاکستان کو سب سے زیادہ زر مبادلہ بھیج رہے ہیں سبز ہلالی پاسپورٹ کو سینے سے تھامے رہ رہے ہیں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بنے ہوئے ہیں ان سے محروم ہونا پاکستانی کی معاشی سانس کو بند کرنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فوج کو دنیا کے سکی حصے میں کرائے کے فوجی بن کر نہیں جاناچاہئیے۔لیکن افسوس تو یہ ہے کہ افریقی ملکوں میں جہاں خانہ جنگی ہے وہاں پاکستانی دستے اقوام متحدہ کی فوج کا حصہ ہیں مگر جہاں اسلامی ملکوں میں انارکی ہے وہاں اقوام متحدہ ریت میں منہ چھپائے کیوں کھڑی ہے؟ ہے کوئی جو شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں اس اقوم متحدہ کو بلائے؟ہائے افسوس کہ مرنے والوں کے خون کو اب فقہوں میں بانٹ کر دیکھا جا رہا ہے۔پاکستان اور عالم اسلام کے ازلی دشمن اب اسے شیعہ سنی فساد میں جھونک رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اس سازش کا آسانی سے شکار ہو رہے ہیں۔جزیرہ نماء عرب سے نکلے یہودی نجران،جیزان اور مدینہ منورہ سے دھتکارے ہوئے ایک سازش کے تحت ان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔یاد رکھنا اس ملک کو کچھ ہوا تو پھر مسلمان ایک نماز نہ پڑھ سکیں گے اور شاید جوتوں میں دال بانٹنے کے لئے ازلی دشمنوں نے ہمیں نشانے پر رکھ لیا ہے۔مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے والے اور مدینہ منورہ کی رونقیں ختم کرنے والے کافر لوگ پاکستان کی طرح سعودی عرب کی طرف بھی میلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔جب تک انصاف سعید شاہ جیسے لوگوں کو ملتا رہے گا میں سمجھتا ہوں اس ملک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔

قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے
اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھ دو

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : افتخار چودھری