عدل بیتی کی تقریب رونمائی

BOOK LAUNCHING of ADIL BEETI

BOOK LAUNCHING of ADIL BEETI

تحریر: طارق حسین بٹ شان

٢٢دسمبر ٢٠٢١ کا دن تاریخِ سیالکوٹ میں اس پہلو سے ہمیشہ یادگار رہے گا کہ اس دن عابد حسین قریشی (ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج) کی پہلی تصنیف (عدل بیتی) کی تقریبِ رونمائی سجائی گئی تھی جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل منفرد تقر یب تھی۔ ایسی شاندار،دلکش، خوبصورت اور دلفریب تقریب شائد اس سے قبل منعقد نہیں ہو سکی تھی۔عوام کا جوش و خروش اور وارفتگی اس تقریب کی روح تھی۔ایک جمِ غفیر تھا جو عدل بیتی کی وساطت سے عابد حسین قریشی کے ساتھ اپنی دلی یگانگت اور محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ہال کچھا کچھ بھرا ہوا تھا جبکہ سامعین کی بے قراریاں حدود فراموش ہو رہی تھیں۔یہ غیر معمولی کیفیت تھی جو اس تقریب میں دیکھنے کو ملی تھی۔ہر شعبہ زندگی کے لوگ اس خو بصورت تقریب کا حسن تھے۔وہ اس تقریب کا حصہ بننے پر بڑے نازاں و فرحاں تھے جبکہ ان کی محبت کناروں سے امڈتی دکھائی دے رہی تھی۔وہ اپنے اپنے رنگ میں مصنف کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے تھے جس سے تقریب کا حسن اور بھی دوبالا ہو گیا تھا۔

مقررین مانندِ عندلیبِ وفا مصنف کے ساتھ گزارے گئے لمحوں سے نقاب الٹ کر سامعین کو حیران کر رہے تھے۔ان کا ایک ایک ایک لفظ اپنے دامن میں محبت کی لازوال داستان سمیٹے ہوئے تھا اور سامعین محبت سے بنائی گئی سحر انگیزتصویر کی دلکشی میں مکمل طور پر مستغرق تھے۔ایک طرف سیالکوٹ کے میاں محمد آصف(ایڈیشنل آئی جی ) تھے جو طویل رفاقت کا احوال سنا رہے تھے اور مصنف کے ساتھ اپنی دوستی اور رفاقت پر فخر کر رہے تھے۔ان کی تقریر انتہائی بر جستہ روح پرور اور دلکشی کی حامل تھی جبکہ دوسری طرف فیصل آباد سے چنگیز خان کاکڑ تھے جو اپنی سچی دوستی اور اپنی وفائوں پر نازاں تھے۔ان کی جرات مندی اور دلیری سے سنائی گئی داستان اتنی پر کشش اور پر کیف تھی کہ ہا ل میں بیٹھا ہوا ہر ایک فرد اس کے سحر میں ڈوبتا چلا گیا ۔ ارشد محمود ( بھگو) بٹ وکالت کے سنہری دور کو یاد کر رہے تھے اور اپنی روائتی شناسائی کے گن گا رہے تھے جبکہ عبدالشکور مرزا بچپن کی معصوم ادائوں کی چاشنی سے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا رہے تھے ۔وہ مصنف کے والدِ محترم (صابر حسین قریشی ) کے ساتھ اظہارِ عقیدت بھی کر رہے تھے اور ان کی عظمت کو سلام بھی پیش کر رہے تھے جس پر عوام ان کی دلی عقیدت پر دل کھول کر داد دے رہے تھے ۔چٹی شیخاں کے لوگ تو پھولے نہیں سما رہے تھے کہ عابد حسین قریشی کی کتاب عدل بیتی کی تقریبِ رونمائی نے رنگ و نور کی ایسی دنیا آباد کر دی تھی جو انتہائی دلکشی کی حامل تھی اور ان کے فخر و ناز اور تشخص کو نئی رفعتوں سے ہمکنار کر رہی تھی۔ ،۔

عدلیہ کے معزز اور پر قار ججز کی ایک گلیکسی تھی جو اس تقریب کی شان تھی۔ عدنان صفدر،سید امجد علی ،آصف بھلی،سردار طاہر صابر ،سید محمود قادر شاہ عدالتوں میں روا رکھی گئی نا انصافی پر اظہارِ خیال کر رہے تھے ۔وہ عابد حسین قریشی کے ساتھ روا رکھے گے سلوک پر سراپا احتجاج تھے اور اسے میرٹ کا قتل قرار دے رہے تھے۔مقررین کے الفاظ،ان کا اندازِ بیاں اور لفظوں کا چنائو سامعین کے دلوں پر شبنم کی طراوت اور گلاب کی پتیوں کی طرح لطا فت کا مدو جزر پیدا کر رہاتھا۔ان کا ایک ایک لفظ سامعین کیلئے راحتِ جاں ثابت ہو رہا تھاجس پر وہ دل کھول کر دادسے نواز رہے تھے ۔ہال میں کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو اس تقریب کی جاذبیت میں کھویا ہوا نہ ہو۔تالیوں کی گونج اور لطافت کی کرنیں ہر سو اپنا جلوہ بکھیر رہی تھیں اور عابد حسین قریشی جلووں کی دنیا سمیٹتے چلے جارہے تھے ۔مقررین کی داستانِ وفا کی حدت سامعین کے دلوں کو مزید گرما رہی تھی اور وہ مزید جوش و جذبہ سے دادا تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے ۔ وفائیں ہمیشہ دلپذیر ہوتی ہیں اور قلبِ انسانی میں حلا وت اور گدازپیدا کرتی ہیںاور یہ سامعین کی خوش بختی تھی کہ محبتوں کا علمبردار عابد حسین قریشی آج کی تقریب کا دولہا تھا۔

صدارتی کرسی پر جلوہ افروز محترمہ حزیلہ اسلم (ڈسٹرک ایند سیشن جج سیالکوٹ) کے چہرے پر خوشی کی کرنیں قوس و قزاح کی مانند بکھری ہوئی تھیں۔وہ نازاں تھیں کہ وہ ایک ایسی تقریب کی صدارت کر رہی ہیں جو سچے جذبوں کی ترجمان ہے ۔ ایک بڑے باپ کی ہونہار بیٹی ہونے کے ناطے وہ اس تقریب کو اپنے دلی جذبات کا ترجمان قرار دے رہی تھیں۔وہ عابد حسین قریشی کی ایمانداری ، جراتمندی،بہادری، اور جی داری پر رطب السان تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ عدل بیتی اتنی دلچسپ کتاب ہے کہ میرے لئے اسے ادھورا پڑھنا ناممکن تھا۔میں نے ساری کتاب انتہائی دلچسپی سے پڑھی کیونکہ عابد حسین قریشی نے جس روانی اورتسلسل سے لفظوں کی مالا پروئی ہے اس کے پیشِ نظراسے مکمل پڑھے بغیر چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔یہ کتاب آنے والے وکلاء کیلئے مینارہ نور کا کام دے گی اور ان کی راہنمائی ایک ایسی منزل کی جانب کرے گی جو عدل و صداقت اور انصاف کی راہ ہے۔یہ کتاب بار اور بنچ کے درمیان توازن ِ تعلقات کو قائم رکھنے کا ایسا نسخہ ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوان ججز اگر عابد حسین قریشی کی قائم کردہ روائت پر چلنے کی کوشش کریں تو بنچ اور بار میں مثالی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ڈی سی سیالکوٹ محترم طاہر فاروق کی موجودگی نے تقریب کے وقارکو مزید پر وقار بنا دیاتھا۔،۔

عدل بیتی کے مصنف عابدحسین قریشی نے عدلیہ کے اندر پلنے والی نا انصافیوں پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔وہ میرٹ کے قتل پر سرپا احتجاج بنے ہو ئے تھے۔ان کا استدلال تھا کہ اگر عدلیہ میں ہی میرٹ نہیں ہو گا تو پھر عدلیہ کس طرح عوام کو انصاف فراہم کر پائے گی؟اپنے تحفظات کے ساتھ ساتھ وہ بہترین انسانوں کے اوصاف بھی بیان کر رہے تھے ۔اعتدال پسندی،صبرو برداشت اور دوسروں کو برابر کا انسان سمجھنا ان کا فلسفہِ زندگی ہے جسے انھوں نے کھل کر بیان کیا۔ بنچ اور بار کے درمیان مثالی تعلقات قائم کرنا ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔اسی لئے انھیں مردِ بحران بھی کہا جاتا تھا ۔ اپنے دوستوں اور محسنوں کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کی آنکھیں چھلک پڑیں جو اس بات کی غمازتھیں کہ مصنف کے سینے میں ایک حساس دل دھڑکتا ہے ۔وہ عوام کی بے پناہ محبت پر ان کے مشکور تھے۔ایسی شاندار تقریب کا انعقاد محض اس وجہ سے ممکن ہو سکا کہ مصنف انسانیت سے محبت پر یقین رکھتے ہیں۔وہ (مسکرائو ثواب ہو تا ہے۔،۔ ختم دل کا عذاب ہو تا ہے ) کے ترجمان ہیں۔

خالد حسین قریشی،عدنان صفدر،زین عابد قریشی اور طارق حسین بٹ شان کی کاوشیں اس تقریب کی کامیابی کی کہانی بیان کر رہی تھیں ۔ عدنان صفدر زیادہ دا دو تحسین کے حقدار ہیں کہ انھوں نے اس تقریب کو سجانے میں زیادہ سعی کی۔ نظامت کے فرائض معروف شاعر، ادیب اور کالم نگار طارق حسین بٹ شان نے سر انجام دئے اور اپنی ادب نوازی اور شاعری سے مرصع انداز ِ نظامت سے سامعین کے دلوں میں جذب و انہماک کی ایسی کیفیت کو جنم دیا جس نے اس تقریب کی دلکشی میں مزید چار چاند لگا دئے ۔ ایسی یادگار تقاریب کبھی کبھار انعقاد پذیرہو تی ہیں۔انھوں نے عدل و انصاف کی ترویج ، معاشرے کی نئی صورت گری اور مقررین کی ساری تقا یر اور کیفیت کو دو اشعار میں سموکر رکھ دیا۔
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہو نا چائیے۔،۔اس نظامِ زر کو اب برباد ہو نا چائیے۔
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم۔،۔ جگنوئوں کو راستہ تو معلام ہو نا چائیے۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر: طارق حسین بٹ شان
(چیرمین ۔ مجلسِ قلندرانِ اقبال۔)