کابل میں ایک اور ویمن مارچ، صحافیوں پر طالبان کا تشدد

Afghanistan Protest

Afghanistan Protest

کابل (اصل میڈیا ڈیسک) کابل میں خواتین کے مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو طالبان کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان خواتین اپنے حقوق کے لیے ایک مظاہرے میں جمعرات اکیس اکتوبر کو کابل کی سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر نکلی۔

اطلاعات کے مطابق رنگ برنگے اسکارف پہنے ہوئے قریب بیس خواتین کابل میں وزارتِ تعلیم کی عمارت کے قریب سے احتجاج کرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کی بلڈنگ تک چلتے ہوئے گئیں۔

انہوں نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر خواتین کےحقوق سے متعلق نعرے لکھے ہوئے تھے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان نے خواتین کو احتجاجی مارچ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رکھنے کی کھلی آزادی دے رکھی تھی۔

احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، ان پر ‘خواتین کو پڑھنے اور نوکری کا حق دستیاب نہیں‘ اور ‘تعلیم پر سیاست مت کریں‘ جیسے نعرے درج تھے۔ ایک پلے کارڈ پر ‘بیروزگاری، غربت، بھوک‘ کے الفاظ بھی لکھے ہوئے تھے۔ وہ مظاہرے کے دوران اپنے بازو بلند کر کے نعرے بازی بھی کرتی رہیں۔

اس ویمن مارچ میں بچے بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ بچے احتجاجی مارچ کا حصہ تھے یا ویسے ہی ساتھ تھے۔

اس مظاہرے کی منتظمین میں سے ایک زاہرہ محمدی کا کہنا ہے کہ خطرات کے باوجود افغان خواتین احتجاجی مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب حالات یہ ہیں کہ طالبان کے نزدیک کسی کی کوئی وقعت نہیں خواہ وہ کوئی عورت ہو یا صحافی، یہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔

زاہرہ محمدی نے یہ بھی کہا کہ بچیوں کے تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اسکولوں کو کھولنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کی خواتین کے نام پیغام دیتے ہوئے کہا کہ انہیں طالبان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور گھر سے باہر نکلنے پر خاندان والے روکیں تو اس سے بھی خوفزدہ نہیں ہونا کیونکہ حق حاصل کرنے کے لیے جد و جہد تو کرنی پڑے گی۔

کابل میں ویمن مارچ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو طالبان انتظامیہ کے کارندوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ کم از کم دو صحافیوں کو چوٹٰیں بھی آئیں۔ ان میں سے ایک کو خودکار رائفل کا پچھلا حصہ مارا گیا جب کہ دوسرے کو طالبان کے مسلح ورکرز نے ٹھوکریں اور مکے بھی مارے۔

نیوز ایجنسیوں کے مطابق خواتین کے مارچ کے ساتھ طالبان کے باوردی کارکن انہیں اپنی نگرانی میں رکھے ہوئے تھے۔ کئی طالبان مقامی افغان مردوں نے جنگی طرز کے لباس پہنے ہوئے تھے۔

طالبان اہلکار امریکی ساختہ ایم سولہ اور اے کے 47 کی رائفلیں اٹھائے ہوئے تھے۔ ابھی تک طالبان نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے اور خواتین کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔