کراچی اور پاکستان کی تازہ ترین صورتحال

karachi killing

karachi killing

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جو کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور تھا جب سے معتبر سیاسی جماعتوں کے قبضے میں آیا ہے شہر میں امن وامان کی بجائے دحشت اور وہشت کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں ہے جو شاید آسانی سے نہ چھٹ سکیں بلکہ دہشت گردی کی گٹھا کھل کر برس بھی سکتی ہے اور کراچی کے ساتھ پورے ملک کو خونی تباہی سے دوچار کر سکتی ہے ( اللہ نہ کرے) میرے خدشات کی بنیاد تمام سیاسی جماعتوں کے وہ جانثار ہیں جوپورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور آجکل تو سیاسی اثر و رسوخ کے حامل بھی ہیں۔

ایک قریبی عزیز کی شادی میں شرکت کرنے کی غرض سے کراچی آنے کا اتفاق ہوا ہے اور گذشتہ ایک ماہ سے بغور مشاہدہ کرنے کے بعد قلم کا سہارہ لے رہا ہوں۔ کراچی بدامنی کیس اور سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے باوجود جس میں کراچی کی خوفناک صورتحال کی ذمہ داری تمام سیاسی معتبر جماعتوں پر عائد کی گئی تھی اور میڈیا پر اس صورتحال کی تفصیلات بھی اکثر سننے اور دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر شومئی قسمت کراچی کی سیاسی جماعتوں نے سپریم کو رٹ کو ٹھینگا دکھا رکھا ہے۔

حکمرانوں کے اس رویے سے سپریم کورٹ بھی اپنی افادیت اور عوام کو جان ومال کا تحفظ دینے واضع طور پر ناکام ہو چکی ہے کیونکہ ماضی قریب کے بے شمار کیس سپریم کورٹ کے واضع فیصلے آنے کے بعد بھی کوئی چمکتکار نہیں دکھا سکے اور پاکستانی قوم پر مصائب کی یہ سیاہ کالی لمبی رات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ وطن عزیز آجکل الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے اور پاکستان کا ہر شہری تبدیلی کا خواہش مند بھی ہے کیونکہ جمہوری دور کی شکل میں گذشتہ پا نچ سالوں نے عوام کی توبہ توبہ کرا دی ہے۔ لیکن یہ بھولے اور سیدھے سادے عوام الیکشن کے کرپٹ نظام کو ابھی ٹھیک طرح سمجھنے سے قاصر ہیں۔

بات کراچی سے شروع ہو کر وطن عزیز کی مجموعی صورتحال کی طرف نکل گئی کیا کروں موضوع ہی ایسا ہے کہ کراچی پاکستان کا روشنیوں کا شہر جو پاکستان کی مالی اور تجارتی ضروریات کو پورا کرتا ہے اورآج چیخ چیخ کر کسی کو اپنی مدد کو بلانے سے بھی قاصر ہے کیونکہ یہاں انسانی زندگی کی قیمت سب سے سستی ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کراچی میں رہنے والاہر شخص وحشت اور دہشت زدہ ہے معتبر سیاسی جماعتوں نے کراچی پر اپنا اپنا قبضہ جما کر نو گو ایریا بنائے ہوئے ہیں جبکہ شہر کے امیر ترین علاقے پرائیویٹ حفاظتی اداروںکے حوالے ہی۔

حکمران طبقہ شہر میں انسانی جانوں کے قتل پر بعض اوقات یہ بیان بھی ہانک دیتے ہیں کہ کراچی تقریبا دو کروڑ کا شہر ہے جس میں دس پندرہ انسانوں کا قتل کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اتنے بڑے شہر میں سیکورٹی ہمیشہ مسائل کا شکار رہتی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن یہ سیاسی رہنما کسی بھی مہذہب ملک کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں حالانکہ یہ پاکستان کے سیاسی رہنما یورپ کی عارضی سکونت کے مزے لوٹ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یورپین حکومتوں کی کابینہ گیارہ یا بارہ وزیروں پر مشتمل ہوتی ہے۔

Pakistan

Pakistan

لیکن کبھی کسی انسان کا قتل ہوجائے تو سرکاری مشینری کس طرح قاتلوں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دیتی ہے لیکن افسوس وطن عزیز میں اور خاص کر کراچی میں درجنوں افراد بھی قتل ہوجائیں تو حکومت کی تمام کاروائی محض ٹوپی ڈرامہ ہی رہتی ہے۔کراچی جس طرح اور بری طرح چند سیاسی جماعتوں کے نرغے میں پھنس چکا ہے اور یرغمال ہو چکا ہے کہ علاقے تقسیم ہو چکے ہیں اور یہ علاقے سیاسی جماعتوں سے منسوب ہو چکے ہیں۔

پورے شہر کی انتظامیہ سیاسی وفاداریوں کے حامل افراد پر مشتمل ہے لہذا کی توقع کرنا محال ہے ، اس شہرمیں اگر کوئی آئین کی پاسداری کی بات کرے تو وہ سب سیاست دانوں کا ازلی دشمن گردانا جا تا ہے۔ راقم کی نظر میں جب تک حکمران طبقہ اور سیا سی لیڈر آئین کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک ملک کے حالات میں تبدیلی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور ملک میں خوشگوار تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ ملک کو جس کرپٹ نظام میں بڑی چالبازی سے جکڑدیا گیاہے۔

اس کا آئین پاکستان سے دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ورنہ عالمی کساد بازاری کا شور مچانے والے حکمران بھی اس کساد بازاری کا شکار ہوتے جبکہ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سفید پوش طبقہ ختم ہوکر رہ گیا ہے اور غریب آدمی غریب تر ہوچکا ہے بلکہ جمع تفریق کے کسی بھی فارمولے کے تحت ایک غریب شہری کس طرح اپنی گذر اوقات کرتا ہے عقل و فہم سے بالا تر ہے جبکہ تمام سیا سی رہنما امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان شاید دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہے جس کے عوام اس کرپشن کے نظام کی وجہ سے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ آزاد الیکشن کمیشن کے انتخابی انتظامات بھی آہستہ آہستہ سوالیہ نشان بنتے جارہے ہیں کراچی میں ایم کیو ایم الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہی ہے اورحلقہ بندیوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیںہے۔ حالیہ دنوں میں نگران وزیر داخلہ کے بیان پر عمران خان بھی شاکی نظر آئے ہیں اور کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

جبکہ اپنی انتخابی حکمت عملی کے مطابق عمران خان ہزاروں تبدیلی رضاکاروں کی فوج بھی بنا چکے ہیں ان تبدیلی رضاکاروں کا کام انتخابی دھاندلی کو روکنا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان مشہور زمانہ سیاسی بازی گروں کے پولنگ اسٹیشن کے اندر جو دائو پیچ استعمال کیئے جاتے ہیں انہیں روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ کافی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ الیکشن مہم کے نام پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہے اور بہایا جا رہا ہے اس کے علاوہ انتخابی عملہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی بھی رکھتا ہے۔

Election Pakistan

Election Pakistan

لہذا اگر اس عملے کو دوسرے شہروں میں ٹرانسفر کرنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے تو بھی الیکشن شفاف نہیں ہونگے کیونکہ سیاسی جماعتیں تو ہر شہر میں ہیں اور یہ انتخابی عملہ اپنی جماعت کے امیدوار کو فیور دے گا۔ آئین کے تحت الیکشن کرانے کے تمام دعوے اس وقت مذاق بن گئے جب کسی امیدوار کی اہلیت کو آئین کے مطابق جانچنا بھی گوارہ نہیں کیا گیا لہذا وہی روایتی سیاست دان جو ہمیشہ وطن عزیز کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ چکے ہیں۔

اس انتخابی افق پر براجمان نظر آئیں گے اور ایکبار پھر اتحادی حکومت بنے گی اور یہی لوگ اقتدار کے مزے لیں گے ، جمہوریت میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جاتی ہے لیکن اس فارمولے پر نہیں کہ تم بھی رج کے کھائو اور مجھے بھی رج کے کھانے دو ۔ کاش الیکشن کمیشن انتخابی امیدواروں کی آئین کے مطابق چھان بین کرتا اور ملک کے خزانے کو بے دریغ لوٹنے والوں کو روک سکتا تو شاید اس کا فائدہ عمران خان کی نوجوان قیادت کو ہو جاتا۔

لیکن موجودہ صورتحال اور نام نہاد آزاد اور شفاف الیکشن کے نام پر ابھی تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے شاید پاکستان میں کوئی تبدیلی نہ آئے لیکن انقلاب دستک ضرور دے گا۔کیونکہ ملک کا سب سے بڑا انصاف کا محافظ ادارہ بھی آئین میں درج حقوق دینے میں ناکام ہوچکا ہے جبکہ پاک فوج بھی مکمل خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہے۔
تحریر : امانت علی چوہان