ہے کوئی ہمارا بھی پرسان حال

Karachi

Karachi

کراچی کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر اور غریبوں کا آسرا کہلاتا تھا مگرآج اسے بے یار و مددگار اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کراچی میں گزشتہ چند سالوں سے ہر روز نت نئے ہولناک اور دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کراچی جسے روشنیوں اور برقی قمقموں کا شہر کہا جاتا تھا آج وحشت اور تاریکی میں ڈوب چکا ہے ان اندھیروں کو دور کرنے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ کراچی میں موجود ہر شہری اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے ایک سوال کر رہا ہے۔

ہے کوئی ہمارا بھی پرسان حال!!!!!۔ کراچی میں روزانہ کئی لاشوں کا گرنا معمول بن چکا ہے مگر کراچی ائیر پورٹ جیسی اہم قومی تنصیبات پر حملہ حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے شاید کافی ہے۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کراچی ائیر پورٹ پر ایک اعصاب شکن اور خونی ڈرامہ دیکھنے کو ملا جب چند دہشتگرد جدید اسلحے سے لیس ہو کر ہمارے قومی ہوائی اڈے پر حملہ آور ہوئے۔ ہینگرز میں موجود طیاروں سمیت کئی اشیاء کو نقصان پہنچانے کی کو شش کی۔ مگر اے ایس ایف ، رینجرز اور دیگر دفاعی اداروں نے بڑی جاں فشانی سے دہشتگردوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا۔

اے ایس ایف کے اہلکاروں سمیت کئی افراد نے جام شہادت نوش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پاک سر زمین کا بچہ بچہ اپنے ملک کے دفاع کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں خوف اور بے چینی کی سی کیفیت بھی طاری ہوگئی۔ یہ حملہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان بھی چھوڑ گیا۔ ناقدین کو یہ کہنے کا موقع ملاکہ یہ ادارے اپنا اصل کام چھوڑ کرملکی سیاست میں مشغول ہو گئے ہیں۔ کراچی ائیر پورٹ پر حملہ نیا نہیں ،اس طرز کے کئی حملے آج سے قبل ہماری دیگر قومی اور دفاعی تنصیبات پربھی ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کے پس پردہ حقائق اور ذمہ دار عناصر کو آشکار نہیں کیا جا سکا۔

گو کہ ہمارے ملک کے جانباز سپاہیوں نے کراچی ائیر پورٹ پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ قوم اورملک کی خاطر خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو ہمہ وقت تیار ہیں مگر یہ بات قابل غور و فکر ہے کہ آخر اتنی بڑی قومی تنصیب پر یہ دہشت گرد کیسے پہنچے ؟ سلامتی کے اداروں سے اپنے فرائض میں کہاں کوتاہی ہوئی؟ کہیں گھر کے کسی بھیدی نے تو لنکا نہیں ڈھا دی؟ یہ تمام سوالات اداروں کی کارکردگی کے متعلق محو گردش ہیں۔اس سانحے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کار بھی اس غور وفکر پر مجبور ہو چکے ہیں کہ ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کیسے کی جائے جبکہ وہاں کے ہوائی اڈے تک دہشت گردوں کی لپیٹ میں ہیں۔ غیر ملکی ہوائی کمپنیاں آج یا تو وہاں اپنے جہاز اتارنے سے انکار کر رہی ہیں یا پھر سیکورٹی طلب کر رہی ہیں۔ الغرض اس حملے کے بعد عالمی سطح پر پاکستانی ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔ کہا جا رہا ہے کہ پی این ایس مہران اور کراچی ائیر پورٹ واقعات میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ کیا حکومتی ادارے اور دفاعی حکام یہ بتا سکتے ہیں کہ پی این ایس مہران پر ہونے والے حملے کے ذمہ داران کے بارے میں تفتیش میں کیا پیش رفت ہوئی؟ کیا اس کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات کے ماسٹر مائنڈز کو گرفتار کیا گیا؟ شاید ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔

اگر پی این ایس مہران اور دیگر اہم تنصیبات پر حملوں کی صیحیح اور بامعنی تحقیقات کی گئی ہوتیں تو شاید آج کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر لاشیں نہ گرتیں۔ دوسری جانب ہرشخص کہہ رہا ہے کہ دہشتگردوں سے ہتھیاروں سمیت کئی بھارتی ساختہ اشیاء ملی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہماری حکومت جو جمہوریت کے فروغ پر یقین رکھتے ہوئے اپنے ہم منصب کی تقریب حلف برداری میں جاسکتی ہے تو اس سے کیا یہ سوال نہیں کر سکتی کہ آپ کے بنائے ہوئے ہتھیار ہمارے ملک کے خلاف کیوں استعمال کئے جا رہے ہیں؟ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید اس جمہوری طرز عمل میں کہیں ہم ملکی سالمیت کا ہی سودا نہ کر بیٹھیں۔

Terrorism

Terrorism

پورے ملک میں جلسے اور ریلیاں تو نکالی جالی رہی ہیں مگر کسی ریلی اور جلسے کا مدعا یہ نہیں کہ پاکستانی معشیت میں 70 فی صد ریونیو پیدا کرنے والے شہر میں آج گولیوں اور بارود کی فضا قائم ہے۔ کسی جماعت کی پالیسی اس طرف نہیں کہ یہ شہر مہینے میں پندرہ دن کیوں بند ہو جاتا ہے۔

آج جب ہمارا ملک دہشتگردی، غربت، بیرونی قرضوں، ناخواندگی سمیت دیگر کئی مسائل کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے، وہاں ہماری کچھ سیاسی جماعتیں اپنی چند سیٹوں کا رونا رو رہی ہیں تو کچھ اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر میں مصروف ہیں۔ کو ئی بھی جماعت اس وقت اس بات کی طرف مائل نظر نہیں آرہی کہ وہ قوم کو بتائے کہ ہمارے ملک کو بنیادی مسائل سے کیسے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔

ہمارے ملک کے دفاع کو کس طرح مضبوط بنایا جاسکتا ہے ، لگتا ہے کہ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، قومی دفاع اور عوامی مسائل کسی کی ترجیح نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر ادارے اپنے سیاسی اور اداراتی مفادات سے بالاتر ہو کو سوچیں اور سب عناصر سر جوڑ کر بیٹھیںاور قوم اور ملک کی کشتی کو مل کر بھنور سے نکالیں۔

Sardar Usman

Sardar Usman

تحریر: سردار عثمان