کشمیر: بھارتی سفارتکار کا متنازعہ بیان، پاکستان کی طرف سے مذمت

Indian Army in Kashmir

Indian Army in Kashmir

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اسرائیلی ماڈل اپنانے سے متعلق نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل کے مبینہ بیان کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اس بیان کی مذمت کی جبکہ بھارت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

بھارت میں سفارتی امور کے ماہرین نے نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل کے اس بیان کو نئی دہلی حکومت کے موقف کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی صورت حال کا موازنہ فلسطین سے بالکل نہیں کیا جا سکتا۔

خیال رہے کہ 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے اسرائیل وہاں 140 یہودی بستیاں قائم کر چکا ہے، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

سندیپ چکرورتی اپنے موقف پر زور دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں: ”مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم لوگ اس (اسرائیلی) ماڈل کو کیوں نہیں اپناتے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسا ہو چکا ہے۔ اگر اسرائیلی ایسا کر سکتے ہیں، تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے وطن سے باہر بھی دو ہزار سال تک اپنی ثقافت کو زندہ رکھا اور واپس اپنی زمین پر بھی لوٹ گئے۔ میرے خیال میں ہم سب کو کشمیری کلچر کو زندہ رکھنا چاہیے۔ کشمیری کلچر ہی بھارتی کلچر ہے، یہی ہندو کلچر ہے۔”

بھارتی وزارت خارجہ کے اگلے ترجمان کے لیے دوڑ میں شامل سندیپ چکرورتی نے یہ باتیں امریکا میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ایک پروگرام میں کہی تھیں، جس میں بھارتی فلمی اداکار انوپم کھیر اور فلم ساز وویک اگنی ہوتری بھی موجود تھے۔ یہ دونوں افراد بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کٹر حامی بتائے جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اس پروگرام کی ویڈیو اگنی ہوتری نے ہی فیس بک پر پوسٹ کی تھی۔

سندیپ چکرورتی نے جموں ارو کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی بھارتی آئین کی شق 370 کے مودی حکومت کی طرف سے منسوخ کیے جانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ”بھارت سرکار صرف آئینی ترمیم کے لیے اتنا بڑا بین الاقوامی خطرہ مول نہیں لیتی۔ یہ ایک بین الاقوامی سفارتی جنگ تھی اور ہم اس میں کامیاب رہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کشمیر کے بغیر بھارت کا تصور نہیں کر سکتا۔”

نئی دہلی میں مودی حکومت نے اسی سال پانچ اگست کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر اور لداخ کے نام سے مرکز کے زیر انتظام دو مختلف یونین علاقے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بھارتی قونصل جنرل کے اس بیان پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ”یہ بیان کشمیر میں آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی والی بھارتی حکومت کی فسطانی ذہنیت کا مظہر ہے۔ کشمیر میں محاصرے کو سو دن ہو چکے ہیں۔ وہاں عوام کو سنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ لیکن دنیا کے طاقت ور ممالک اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔”
ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم ہے اور بھارت میں ایک ہندو ریاست قائم کرنے کا بار بار سرعام اعلان کرتی رہی ہے۔

گوکہ عالمی برادری کے ایک حصے کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی تبدیلیاں بھارت کا داخلی معاملہ ہیں تاہم وہاں سکیورٹی فورسز کی مسلسل تعیناتی، مواصلاتی رابطوں پر پابندی اور چوٹی کے لیڈروں سمیت سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے حراست میں رکھے جانے پر یورپی یونین اور امریکا نے بھی تنقید کی ہے اور وہاں عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارتی قونصل جنرل نے مغربی ممالک کی ان کوششوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، ”اکثریتی برادری کی حیثیت سے ہم نے اپنی طاقت کا کبھی استعمال نہیں کیا۔ ہم نے ہندو کلچر کی طاقت کا استعمال کبھی نہیں کیا۔ لیکن جب آج ہم اس کا استعمال کر رہے ہیں، تو لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ ہمارے خلاف قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں۔ اس موضوع کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل اور امریکی کانگریس میں اٹھایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ لوگ شام، عراق اور افغانستان میں کیوں نہیں جاتے؟ وہاں جا کر تصویریں کیوں نہیں لیتے؟ آخر آپ ہمارے ملک میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟ اب جب ہم نے اپنی حیثیت کا احساس دلانا چاہا ہے تو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔”

بھارتی سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قونصل جنرل سندیپ چکرورتی کا یہ ‘سرکاری بیان‘ بھارت کے دیرینہ موقف کے یکسر خلاف ہے اور اس بیان سے بھارت کو عالمی برادری میں سبکی اٹھانا پڑے گی۔

ڈی ڈبلیو سمیت متعدد میڈیا اداروں کے صحافیوں کی طرف سے بھارتی وزارت خارجہ سے اس معاملے میں سرکاری طور پر وضاحت کی درخواستیں تو کی گئیں تاہم یہ رپورٹ شائع کیے جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔