کشمیر حق خود ارادیت، بھارت رکاوٹ

Kashmir

Kashmir

اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی کشمیر کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی حق خودارادیت کی ضمانت کو تسلیم کر کے اس کا نفاذ کیا جائے۔ حق خود ارادیت کے نفاذ میں مسئلے کے تینوں فریقوں پاکستان ،بھارت اور کشمیری عوام کی شرکت کو یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جموں و کشمیر کے عالمی شہرت کے کسی خصوصی نمائندے کا تقرر کریں۔واشنگٹن میں قائم کشمیری امریکن کونسل کے زیر اہتمام ”کشمیر انتخابات کا مسئلہ ہے یا حق خودارادیت کا؟” کے موضوع پرمنعقدہ عالمی کانفرنس میں قرار دیا ہے کہ پاکستان ، آزاد اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین و نمائندگان دانشور، سکالر، سفارتکار، ممبران پارلیمنٹ ، صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ اڑھائی سو سے زائد شرکاء نے موضوع پر بلاتکلف اور تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

مندرجہ ذیل متفقہ اعلامیہ کی منظوری دی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر کے عوام کے جس حق خوارادیت کی ضمانت فراہم کی ہے اس کو تسلیم کیا جائے اور تکریم کے ساتھ نافذ کیا جائے۔متذکرہ بالا امر کو مسئلے کے تینوں فریقوں بھارت ،پاکستان اور کشمیری عوام کی شرکت سے یقینی بنایا جائے۔کانفرنس کے شرکاء اس بات پر یکسو ہیں کہ پاک بھارت امن عمل اور نمائندہ مذاکرات کا محور و مرکز جموں و کشمیر کے عوام ہیں اس لیے وہی مسئلے کے اصل فریق ہیں اور وہی ہیں جن کامستقبل داؤ پر لگا ہے۔شرکاء مقبوضہ خطے میں کرائے گئے حالیہ انتخابی ڈھونگ کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کا بدل نہیں سمجھتے۔مقبوضہ خطے میں قابض فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی 67سال تک مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کا شاخسانہ ہے۔

جو لوگوں کو غائب کرنے،ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی گرفتاریوں،ٹارچر، بیواؤں ،یتیموں، نقل مکانی، ہجرت اور اجتماعی قبروں کا بھارتی سیلاب بھی اپنے ساتھ لایا ہے۔کانفرنس نے آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ ،ڈسٹربڈایریاز ایکٹ اور جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کی مذمت کی اور ان کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔شرکاء نے پریس پر قدغن عائد کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کے جمع ہونے،رائے کا اظہار کرنے،مذہب پر عمل کرنے اور چلنے پھرنے کے حق بحال کیا جائے۔کانفرنس نے جیلوں،گھروں، تفتیشی مراکز اور دیگر مقامات پر کالے قوانین کے تحت ایام اسیری گزارنے والے قائدین اور سیاسی ورکروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔شرکاء نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سید علی گیلانی،شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کو سفری دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں۔

نتیجتاً وہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکے۔ کانفرنس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ جموں کشمیر کے لیے عالمی شہرت کے کسی ایک خصوصی نمائندے کا تقرر عمل میں لائیں۔کشمیری امریکن کونسل کے زیر اہتمام بین الاقوامی کشمیر کانفرنس سے صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب خان،چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سلطان محمود، جماعت اسلامی کے امیر عبد الرشید ترابی، سابق صدر آزاد کشمیر جنرل(ر) سردار انور جے کے سی ایچ آر کے سربراہ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی ، حریت رہنماء غلام محمد صفی ،محمد یوسف نسیم ،مولانا غلام نبی نوشہری، الطاف، اشتیاق احمد، منظور ،محمود ساغر، جسٹس (ر) مجید ملک، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سپریم ہیڈ امان اللہ خان، کشمیری امریکن کونسل کے ڈاکٹر امتیاز سردار ذوالفقار نے بھی خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا نظریہ تابناک نظر نہیں آتا۔

الحاق کے نظریے کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مسئلے پر پاکستان میں کوئی ابہام نہیں ہے تاہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ان پہلوؤں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کو بنیاد بنا کر بھارت حق خوارادیت کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے عالمی دباؤ کی وجہ سے کشمیریوں کی خواہشات پر پورا اترنا پاکستان کے بس میں نہیں ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی نے مسئلہ کشمیر پر بھر پور جدوجہد کی ہیں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں میں ان کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا اظہار کرتا ہوں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ریاستی موقف غیر بہم ہے پاکستان تسلسل سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے اس میں حکومت عوام سب شامل ہیں۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت پر کوئی ابہام نہیں۔مقبوضہ کشمیر کے انتخابات حق خودارادیت کا متبادل نہیں۔1949ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر 67 سے عملدرآمد نہیں ہوا۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے رویوں میں اس دوران اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد صورتحال بدل گئی ہے مسئلہ کشمیر متاثر ہوا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اصل مسئلے کی حیثیت اختیار کر لی ہے دوسرے مسائل، کشمیر ہو فلسطین ہو چیچنیا کا ہو قانونی مسائل بن گئے ہیں آزادی کے لیے جدوجہد کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالا جا رہا ہے انہیں موقف سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔

Pakistan

Pakistan

مساعد حالات کے باوجود کشمیریوں نے کسی کمزوری کا اظہار نہیں کیا۔ہمیں تسلیم کرنا ہو گا پاکستان اس کے ادارے پاکستان کی حقیقت ،دفاع عالمی دباؤ میں ہے اس دباؤ کی وجہ کشمیریوں کی خواہشات پر اترنا پاکستان کے بس میں نہیں ہے ہمیں پاکستان کو اس دباؤ سے نکالنے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا ہمارے پاس اصولی موقف ہے پالیسیوں اور حکمت عملی کا فقدان ہے۔ کشمیر پر موقف کے باوجود عملی اقدامات نہ ہونے سے کشمیریوں کی وکالت نہ کر سکے۔ پاکستان جب دعویٰ دائر کرتا ہے تو کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ہوتا ہے جب دلیل پیش کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے دلیل میں پاکستان اپنا مفاد پیش کرتا ہے چنانچہ ہم اس کا حق ادا نہیں کرتے۔

اگر بھارت پاکستان کا پانی روک کر پاکستان کو کمزور کرتا ہے تو پاکستان کا انحصار تجارت پر ہو گا ہم نے تجارت کے حوالے سے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے۔کشمیریوں کو باہم رابطے اور ملنے کی سہولتیں ملنی چاہیے۔شملہ معاہدے کے تحت تعلیم ، کلچر ہر موضوع پر بحث ہو سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر باہمی مذاکرات کئے جائیں تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو شامل کیا جائے۔ 1972 کے بعد آج تک کیوں عالمی برادری کو نہیں بتایا گیا کہ بھارت قراردادوں کو نہیں مانتا۔ پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی منایا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کے حوالے سے بیس کیمپ کی صلاحیت برقرار ہے۔ کشمیر کمیٹی مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے سفارشات پیش کرنے کا رول ہے ہم کمیٹی کے سامنے نیا ایجنڈا لانا چاہتے ہیں ہم پالیسی ساز کمیٹی بنانا چاہتے ہیں۔

 Kashmir Solidarity Day

Kashmir Solidarity Day

حق خودارادیت کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی حکمت عملی کی ضرورت ہے قرار داد میں صرف حق خودارادیت لکھا ہے اور کچھ نہیں لکھا ہے ہم نے حکمت عملی خود بنانی ہے حق خودارادیت کے نتیجے پر پہنچنے کے لئے رکاوٹوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے کشمیر کے الحاق کے نظریئے کو مستحکم کرنا ضروری ہے یہ نظریہ مستحکم نظر نہیں آ رہا۔ 5 فروری کو یوم یکجہتی کے موقع پر وزیر اعظم کے ساتھ مظفر آباد میں قانون ساز اسمبلی کی کارروائی دیکھی وہاں کے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے مسئلہ کشمیر کے بجائے فنڈز پر ساری تقریر کی کشمیریوں کو خود بھی مسئلہ کشمیر پر آواز بلند کرنی چاہئے۔

تحریر: ملک اسرار