اپنی بولی اپنا دیسی کیلنڈر

Punjabi language

Punjabi language

تحریر: روہیل اکبر

گذشتہ روز مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا ہم نے اپنی پنجابی زبان سمیت پاکستان میں بولی جانے والی سبھی زبانوں کا تذکرہ بھی کیا پنجابی دنیا کی نویں بڑی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی تاریخ تبدیل کرنے والی پہلی زبان ہے دیسی کیلنڈردنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈر میں سے ایک ہے آج ہم انہی دیسی مہینوں کا تعارف اور وجہ تسمیہ جاننے کے ساتھ ساتھ پنجابی کے کچھ ایسے الفاظ بھی شامل کرینگے جنہیں اب بولتے ہوئے ہم شرما جاتے ہیں ہمارے دیسی مہینوں کے نام بھی ہمیں یاد نہیں ہیں اور انکا مطلب کیسے یاد ہو سکتا ہے ہمیں اپنی زبان سے پیار کرتے ہوئے اسے بلا جھجک بولنا چاہیے ہماری دیسی مہینے کچھ یوں ہیں 1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)،2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا)

3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ)،4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز)،5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون)،6۔بھادوں /بھادروں /بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں)،7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل)،8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی)،9۔ مگھر/منگر (سرد)،10۔ پوہ (سخت سردی)،11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند)،12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)،برِصغیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا آغاز نصف صدی قبل مسیح میں ہوا اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ ”راجہ بِکرَم اجیت”کے دور میں ہوا راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔

اس شمسی تقویم میں سال ”چیت”کے مہینے سے شروع ہوتا ہے تین سو پینسٹھ (365) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینا وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں ہماری یہ دیسی مہینے انگریزی کی کس تاریخ کو شروع ہوتے ہیں اب انکا جائزہ لیتے ہیں 1: 14 جنوری۔۔۔ یکم ماگھ،2: 13 فروری۔۔۔ یکم پھاگن،3: 14 مارچ۔۔۔ یکم چیت،4: 14 اپریل۔۔۔ یکم بیساکھ،5: 14 مئی۔۔۔ یکم جیٹھ،6: 15 جون۔۔۔ یکم ہاڑ،7: 17 جولائی۔۔۔ یکم ساون،8: 16 اگست۔۔۔ یکم بھادروں،9: 16 ستمبر۔۔۔ یکم اسوج،10: 17 اکتوبر۔۔۔ یکم کاتک،11: 16 نومبر۔۔۔ یکم مگھر،12: 16 دسمبر۔۔۔ یکم پوہ۔بکرمی کیلنڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے ان پہروں کے نام کچھ یوں ہیں 1۔ دھمی/نور پیر دا ویلا:صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت،2۔ دوپہر/چھاہ ویلا:صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت،3۔ پیشی ویلا: دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت،4۔ دیگر/ڈیگر ویلا:سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت،5۔ نماشاں /شاماں ویلا:شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت،6۔ کفتاں ویلا:رات 9۔بجے سے رات 12 بجے تک کا وقت،7۔ ادھ رات ویلا:رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت،8۔ سرگی/اسور ویلا:صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت لفظ ”ویلا”وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے پنجابی میں ایک مہاورہ بہت کثرت سے بولا جاتا ہے۔

خاص کر بزرگ ہمیں سمجھانے میں یہ جملہ بہت استعمال کرتے ہیں “ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں ” جسکا مطلب یہ ہے کہ وقت پر کام کرلیا جائے تو اسی کا فائدہ ہے بعد میں کیا جانے والا کام کسی کام نہیں آتا اس وقت لاہور میں پنجابی زبان کی تریج و ترقی کے حوالہ سے مدثر اقبال بٹ اور میرے استاد جناب جمیل احمد پال صاحب بہت زیادہ کام کررہے ہیں پنجاب زبان پر بے تحاشا اور انتھک کام پلاک کی سربراہ ڈاکٹر صغراں صدف بھی کررہی ہے ایک خاتون ہوتے ہوئے پنجابی زبان کا حق جو انہوں نے ادا کیا ہے وہ ہم نہیں کرسکے ایسے افراد ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں یہ وہ گوہر نایاب ہیں جو پنجابی زبان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیے ہوئے ہیں انکی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔

ان لوگوں نے نہ صرف ہمیں احساس کمتری سے نکالا ہے بلکہ ہماری اس نسل کو بھی یہ سبق سکھایا ہے کہ ماں بولی میں بات کرنا شرمندگی نہیں فخر ہے جتنا فخر ہمیں اپنے ماں باپ پر ہے اتنا ہی فخر ہمیں اپنی مادری زبان پر بھی ہے اسکا کوئی لفظ برا نہیں یہ وہ بھر پور زبان ہے جسکا مطلب سمجھانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی وقت لگتا ہے پنجاب زبان کو ہمارے سلیبس کا حصہ ہونا چاہیے اور خاص کر پنجاب حکومت پنجابی کے فروغ کے لیے جو عملی اقدامات اٹھا رہی ہے وہ بھی لائق تحسین ہیں وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی چاہتے ہیں انہی کی کاوشوں سے ڈاکٹر صغراں صدف کی زیر نگرانی پنجابی زبان کا پہلا سرکاری ٹی وی چینل بھی شروع ہونے جارہا ہے جو نہ صرف پنجاب کی نمائندگی کریگا بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پنجابیوں کی آواز بھی بنے گا پلاک میں مختلف زبانوں کے ساتھ ساتھ پنجابی،گرمکھی بھی سکھائی اور پڑھائی جارہی ہے اس سے پنجاب حکومت کا پنجابی سے پیار کا اندازہ ہو جاتا ہے ہم پر بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ماں بولی سے پیار کریں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر