کیا ہم مخلص ہیں

Pakistan

Pakistan

پیرس میں بجلی سے اڑنے والے جہاز کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا یہ جہاز (Merignac) جو ساڑے نو میٹر لمبا ہے تقریبا آدھا گھنٹہ فضا میں پرواز کرتا رہا جبکہ یورپ کے ان علاقوں میں بجلی سے چلنے والی کاریں پہلے ہی عام ہیںان ممالک میں نہ تو کسی کو پینے کے لیے گندا پانی ملتا ہے اور نہ ہی وہاں کے سیاستدان کرپٹ اور چور ہیں اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا اب ترقی کی منازل تیزی سے طے کررہی ہے جبکہ ہم اور ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو تنزلی کے طرف دھکا لگا رکھا ہے یہاں پر ہمارے سیاستدان جو خود تو اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں کے سامنے سے گذرنے بھی نہیں دیتے اور ان کے لیے ایک منٹ کی لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کر سکتے وہ انہی اپنے ووٹروں کو گرمیوں میں ٹرپتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں جن کے ووٹوں سے جیت کر وہ خادم اعلی کہلاتے ہیں۔

سرکاری سکولوں کو کلرک اور بے روزگاروں کی آماجگاہ بنا دیا ہے پاکستان بھر میں بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے بجلی نام کی چیزیں ختم ہوچکی ہے پینے کو اب صاف پانی تو ایک طرف گندہ پانی بھی میسر نہیں رہا اور ہمارے جنوبی پنجاب کے اکثر علاقوں میں انسان بھی وہی پانی پیتے ہیں جو انکے جانور پیتے ہیں کسی دور کی بات ہے کہ انصاف اتنا عام اور مفت تھا کہ کوئی کسی کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے اور اب ہمارے حکمرانوں نے بے انصافی ،چور بازاری ،اقربا پروری اور کرپشن کو اتنا عام کردیا ہے کہ اس ترقی اور تہذیب یافتہ دور میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں اور یہ بات ہمارے اراکین اسمبلی ایسے بتاتے ہیں جیسے اس بات پر انہیں بڑا ہی فخر ہو میانوالی سے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی احمد خان بھچر اور رحیم یار خان سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی مخدوم علی اکبر محمود کو میں نے ایک ٹیلی ویژن کے پروگرام میں بطور مہمان بلایا ہوا تھا۔

انہوں نے اپنے علاقوں کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات کیے کہ جسے سن کر میں حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکا یہ اور ان جیسے معزز اراکین اسمبلی کی تعداد اکثریت میں ہے جو سیاست تو اپنے علاقے میں کرتے ہیں مگر رہتے یہ خود لاہور میں ہیں انکے بچے اعلی ترین انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں انکے گھروں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک منٹ کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہوتی گندا پانی تو دور کی بات ہے یہ لوگ منرل واٹر کو بھی صاف کر کے پیتے ہیں جب ایسے لوگوں کو ہم اپنا نمائندہ منتخب کرکے اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اسمبلیوں میں پہنچائیں گے تو پھر ہم بجلی ،گیس اور پیٹرول سے دن بدن محروم ہوتے جائیں گے کیونکہ یہ لوگ ہمارے نمائندے نہیں ہو سکتے یہ کسی اور کے ایجنڈے پر ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل دائو پر لگائے بیٹھے ہیں۔

Load Shedding

Load Shedding

پاکستان کو آزاد اور خود مختار ہوئے نصف صدی سے زائد کا وقت گذر چکا ہے دنیا نے ہماری سوچ سے بھی زیادہ ترقی کرلی ہے اور ہمیں آج تک صاف پانی پینے کو نہیں مل سکا جو انسان کی زندگی کے لیے بنیادی چیز ہے گندا پانی پی پی کر ہمارے ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی مریض بن چکی ہے اور اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں ہیپاٹائٹس جیسا موذی اور خطرناک مرض لگ چکا ہے ہمارے حکمرانوں کے سر میں بھی درد ہو تو علاج کروانے کے لیے باہر بھاگ جاتے ہیں جبکہ یہاں پر سرکاری ہسپتالوں میں ایک ڈسپرین کے لیے گھنٹوں لائن میں لگنا پڑتا ہے اور خطرناک بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ایسے مریضوں کو لوٹنے کے ہمارے ملک میں عامل اور نیم حکیم بہت ہیں جو مریض کا قبر تک پیچھا کرتے ہیں اور اس سے کفن دفن کے پیے تک چھین لیتے ہیں حکومت کے پاس ان لٹیروں کو پکڑنے کا وقت ہے اور نہ ہی عام انسانوں کو انکی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے کوئی پلاننگ ہے ہم آج بھی صدیو ںپرانی زندگی گذاررہے ہیں مگر اس میں تھوڑی سے تبدیلی ہوئی ہے کہ پہلے انسان غاروں اور جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔

اب ہم مکانوں میں رہنے لگے ہیں بے شک کچے ہیں پہلے خاندان کا ایک فرد شکار کرکے لاتا تھا اور باقی سب کھاتے تھے اب ہمارے حکمرانوں کی کمال مہربانی سے ہر فرد شکاری بن چکا ہے اور خاص کر سرکاری اداروں میں ہر افسر جال لگائے بیٹھا ہے اور اپنے اپنے شکار سے محظوظ ہو رہا ہے جبکہ ہمارے سیاستدانوں نے بڑے جال لگا رکھے ہیں جہاں بڑی مچھلیاں خود آکر پھنس جاتی ہیں اور انہی شکاریوں کی چالوں نے ہمارے ملک کو تباہی کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔

اس وقت ملک میں روزگار ہے اور نہ ہی روزگار کے زرائع ہیں اگر خدا خدا کر کے سینکڑوں میں سے کوئی ایک شخص کسی عہدے پر تعینات ہو جاتا ہے تو ہمارے سیاستدان اسے بھی اپنے رنگ میں رنگ کر ایک جال اسے بھی تھما دیتے ہیں جو رہی سہی کسر غریب عوام پر نکالتا ہے بڑے شہروں میں ترقی کا معیار صفر ہے اور جو ہمارے پسماندہ علاقے جن میں چولستان اور تھروغیرہ شامل ہیں وہاں پر گرمیوں میں ہمارے یہ سیاسی بہروپیے ایک ہفتہ نہیں نکال سکتے۔

ان کی حالت تو وہاں کی گرمی اور وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کو دیکھ کر فورا ہی خراب ہو جائیگی جہاز پر سفر کرنے والے اور گرمیوں میں ٹھنڈے موسم کا مزا لینے والے کبھی اپنے ووٹروں کے ہمراہ بھی ایک دن گذاریں جن کی وجہ سے وہ عیش وآرام کی تمام سرحدین عبور کررہے ہیں اور بطور پاکستانی اب ہمیں بھی تو سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے ملک سے مخلص ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
فون نمبر : 03466444144