جب سکھر میں پولیس افسر گدھا گاڑی والے پر تشدد کرے؟

Humanity

Humanity

بے شک ہر اِنسان ایک ہی باوآدم علیہ السلام کی اولاد ہے اوراِس کی خصلت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نہ تو وحشی بنے اور نہ دیوتا،مگربس وہ اِس جستجو میں رہے کہ وہ انِسان بن کر اِنسانیت کی معراج کو پائے ،اور جب کوئی اِنسان ،خود کو اِنسان تو فخریہ کہلائے مگر اِس میں اِنسانیت تو کیا..؟اِنسانوں والی بھی کوئی خوبی موجودہ ہی نہ ہو..توپھربھلا کوئی لاکھ دیوار سے سر ٹکراکر یقین دلاتارہے کہ وہ اِنسان ہے، ایسے اِنسان پہ قطعاََ اعتبار نہ کیاجائے کہ اِس میں اِنسان یا اِنسانوں والی خصوصیات ہیں اور اِنسانیت کا حامل ہے ،شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ” اگرتجھے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیںہے تو تُواِس قابل نہیں کہ تجھے اِنسان کہاجائے”اور جو اِنسان ، اِنسان ہوکر بھی حیوانوں جیسی زندگی بسرکرے، وہ مُلک و معاشرے میںبسنے والے اِنسانوں کے لئے خطربن جایاکرتاہے۔

اِسی طرح جب ایسااِنسان ،انسانیت کے لئے جنجال بن جائے تو ایسے اِنسان کا خاتمہ کردیناہی اِنسانیت کی فلاح اور خدمت ہے،داناکہتے ہیں کہ جب کسی بھی مُلک اورکسی بھی معاشرے کے اِنسانوں سے اِنسانیت ختم ہوجائے یا جب اِنسانیت کو نظراندازکردیاجاتاہے تو دُکھ افلاس اور ظلم وجبرکادوردورہ ہوجاتاہے۔

ابھی اگلے سطور میں،میں دوایسی ہی خبروں کو بیان کرناچاہوں گاجن سے ایساہی لگے گاکہ جیسے میرے مُلک میں بسنے والے اِنسانوں میں سے اِنسانیت ختم ہوگئی ہے، اور آج جب ہی میرے مُلک کی تہذیب اور معاشرے میں ظلم وجبرکا دوردورہ ہے آج ایسے ماحول اورایسے سسٹم کے خاتمے کا نام ہی تو اِنقلاب اور نیاپاکستان ہے اور انقلابی تبدیلیوںکے ساتھ نئے پاکستان کا نعرہ ہے۔

پہلی خبریہ ہے کہ” گوجرانوالہ کی تحصیل وزیرآبادکے نواحی گاؤں ساروکی میں محنت کش کا 10سالہ بیٹاخضرکھیلتے ہوئے چوہدری اکرام کے باغ میںچلاگیااور مالٹاتوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے چوہدری اور اِس کے ملازمین کی پکڑمیں آگیاجنہوں نے اِسے (بے فکری اور خودکو قانون کی گرفت سے آزاد تصورکرتے ہوئے) شدیدتشدد کا نشانہ بنایاجس سے بچے کی آنکھ ضائع ہوگئی ،خضرکی ماں اپنے لختِ جگرکو طبی امدادکے لئے احمدنگرکے قریبی اپستال لے آئی جہاں ڈاکٹروں نے بچے کی آنکھ ضائع ہونے کی تصدیق کردی اور بچے کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹراسپتال ریفرکردیاآئی جی پنجاب مشتاق سکھیرانے صرف واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے احمدنگرپولیس کو فوری طور پر بااثرملزمان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے گرفتارکرنے کی ہدایت کردی (جبکہ ابھی تک اِس واقع سے متعلق ایسی کوئی اطلاع نہیں آئی ہے۔

اِس کے بعد ملزمان کے خلاف پولیس کی طرف سے مزید اورکیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ، بس قوی توقعہ یہی ہے کہ حسب ِ معمول ایساہی ہواہوگاجیساکہ میرے مُلک کے بااثرملزمان کے بااثرمعاشرے میں رائج سسٹم میں ہوتاآیاہے کہ ملزمان اپنے تعلقات اور دولت کی بدولت آزاد گھوم پھررہے ہوں گے اور محنت کش کا دس سالہ معصوم بچہ خضر اپنی ایک آنکھ سے اندھاہوکرزندگی بھر اندھے کی لاٹھی کے سہارے زندگی کاٹنے پر آمادہ ہوگیاہوگا،اور بااثرافراد قانون کی گرفت سے آزاد رہ کر پھر کسی غریب پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروفِ عمل ہو گئے ہوں گے۔

Police Violence

Police Violence

جبکہ دوسری اٰسی طرح کی ظلم اور بربریت کی خبرسکھر سے بھی آئی ہے ،جب پولیس کے ایک اعلی عہدے دار نے سکھرکی ایک سڑک پر وی وی آئی پی کی آمدپر سڑک سے راستہ صاف کرنے کے لئے کنارے کھڑے گدھاگاڑی والے کو ہٹانے کی کوشش کی اور ذراسی بحث وتکرارکے بعد پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ غریب گدھاگاڑی والے پر ایسا شدید تشدد کیاکہ گدھاگاڑی والااور اِس کا گدھادونوں ہی بری طرح سے زخمی ہوگئے ،اُس وقت اِن(دونوں گدھاگاڑی والے اور گدھے) کی جان چھوٹی جب عوام نے پولیس والوں کے ظلم وجبراور تشددسے دونوں کوآزادکروایا” ایسے واقعات تو میرے مُلک کے اِس بااثر افرادکے بااثر معاشرے میں غریبوں اور محنت کشوں کے ساتھ آئے روز ہی بے شمارپیش آتے ہیں یہ دوایک واقعات اِس لئے سامنے آگئے ہیں کہ میڈیاآزادہے اور یہ سب کچھ دیکھ بھی رہاہے۔

کوشش کرتاہے کہ یہ وہ سب کچھ سب کو کھل کردکھابھی دے جو یہ دیکھ رہاہے مگرایسااِس کے لئے ممکن نہیں ہے بس جو یہ دیکھ رہاہے اور جو دکھا رہے جان لیں کہ یہ سب کچھ سچ اور حقیقت پر مبنی ہوتاہے ، اور ساتھ بھی میڈیایہ بھی بتارہاہے کہ ہمارے یہاں توایسا68سالوں سے ہی ہورہاہے ، مگر افسوس ہے کہ آج تک کسی نے بھی بااثر افراداور بااثر ملزمان کے خلاف آوازنہیں اُٹھائی ہے ،اَب تو قوم جاگ جائے اور 68سالوں سے جمہوریت کی آڑلے کر مُلک پر قابض مٹھی بھر بااثرافراداور بااثرملزمان جو کبھی حکمران بن کرتو کبھی اپوزیشن میں رہ کر یاپھرکسی دوسرے روپ میں 19کروڑافرادکا حق غضب کئے بیٹھے ہیں اَب بھی وقت ہے کہ قوم اِن کے خلاف نکلے تواپناحق لے کر عزت سے جی سکتی ہے ورنہ توقوم بااثرفراداور بادشاہانہ طرزِحکمرانی کرنے والے حکمرانوں کے ظلم وستم سے ایڑیاں رگڑرگڑکر مرجائے گی۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انقلاب اور نیاپاکستان بنانے ( دراصل موجودہ پاکستان کے جاگیردانہ، وڈیرانہ، ،چوہدارانہ ،سرمایہ دارانہ، نوابزادانہ، خانصاحبانہ اورحکمرانوں کے بادشاہانہ طرزِحکومت اور عوام سے کئے گئے ریلیف کے وعدوں کو پورانہ کئے جانے پر اِن کی ایسی منافقت پر مبنی مکروہ حکمرانی کے سسٹم کے خاتمے )کے لئے عمران و قادری باہرنکلے ہوئے ہیںاورقومی اُمید ہے۔

یہ جیساچاہتے ہیں اَب یہ اپنی جدوجہدسے معاشرے میں رائج امیروغریب کے دُھرے نظام کاخاتمہ کرکے ہی دم لیں گے ،کیوں کہ یہ دونوں مُلک میں رائج ایک ایسے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں کہ آج جس نظام میں ” جب کوئی غریب کا بچہ کسی زمیندارکی زمین پرلگے درخت سے مالٹاتوڑے تو…. اِس غلطی پر زمیندارکا بچے پر وحشیانہ تشدد ہو،اور اِس سے بچے کی آنکھ ضائع ہو جائے، تو کوئی زمیندار کو کچھ نہ کہہ رہاہو، بلکہ اُلٹا زمیندارکے تشدد سے آنکھ سے محروم ہوجانے والے بچے کے خلاف ہی پرچہ درج کیا جائے، اور بچے سمیت والدین کوبھی حوالات میں بندکردیاجائے،توجب ایسے مُلک کے ایسے معاشرے کے ایسے نظام کے خلاف کوئی بولنے والانہ ہو۔

جب زمیندار کے اِس ظلم کے خلاف بچے کے حق میں کوئی آواز اُٹھانے والابھی کوئی نہ ہو ، اُلٹا ایسے نظام میں جب زمیندار کا مالٹاتوڑنے پر غریب کے معصوم بچے پر تشددسے آنکھ ضائع ہوجائے تو اِس بہادری پر زمیندارکو عزت و تکریم سے نوازہ جائے اورزمیندارکی عزت و تکریم اور شان وشوکت بڑھادی جائے اور ایسے نظام میں زمیندار ایم این اے یا ایم پی ایز کا الیکشن لڑکر ایوانوں میں پہنچ جائے اور اِس طرح اِسے عزت وتوقیرکے بلند درجات عطا کر دیئے جائیں۔

سکھر کی سڑک کے کنارے وی وی آئی پی کی آمد پر گدھاگاڑی والے پر تشددکرنے والے پولیس افسر کو کبھی ترقی دے دی جائے ”توکیا ایسے مُلک کے ایسے معاشرے کے ایسے نظام کے خلاف عمران و قادری کا انقلاب اور موجودہ پاکستان کے موجودہ فرسودہ سسٹم کویکسر بدل کر نیاپاکستان بنانے کا نعرہ کوئی جرم تو نہیں ہے …؟آج جن(عمران اور قادری ) کے خلاف ہمارے موجودہ حکمران (جنہوں نے اپنے سولہ ماہ کے اقتدارمیں بادشاہانہ طرزِ حکمرانی کی ایسی مثالیں قائم کیں ہیں جن کی مُلکی تاریخ میں کوئی نظیرنہیں ملتی ہے ) اور اِن کی حکومت کی اپوزیشن والے صف آراہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com