مئی سے مئی تک

Inflation

Inflation

اتفاق سے میرا دوست یونیورسل ہیومن رائٹس تحصیل حاصل پور کے صدر ملک ندیم اقبال اور میں اکھٹے بہاولپور بازار سے خریداری کرنے کے بعد ویگن میں سوار ہونے کے بعد واپس گھر آ رہے تھے۔ تو راستے میں ہم نے یہ محسوس کیا کہ ویگن انتظامیہ کے ساتھ ساتھ تمام مسافر بھی اپنا اپنا رونا رو رہے تھے۔ ہر شخص اپنی اپنی محرومی بیان کر رہا تھا۔ ہر کوئی مسائل سے دو چار تھا۔ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی دکھ تھا۔ تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے ساتھ سارا زمانہ مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ کوئی بھی اس گرداب سے نکلنے نہیں پا رہا۔ بلکہ مزید آگے پھنستا چلا جا رہا ہے۔

سرکاری ملازم ہو یا کسان، مزدور ہو یا دوکاندار، چوکیدار ہو یا ڈرائیور، ریڑھی بان ہو یا چھابڑی والا، فیکٹری مالک ہو یا ٹرانسپورٹر عرض ہر کوئی موجودہ حکومت سے نالاں اور ناخوش دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے غریب عوام پر مہنگائی کے پہاڑ گرا کر درد کو عام کر دیا ہے ۔ اچھا ہوا انہوں نے کچھ تو عام کیاورنہ تو سب کچھ خاص ہو چکا تھا۔ صرف خاص لوگوں کے لیئے۔حکومت کی چال تو دیکھیں انہوں نے اس لیئے تو درد کو عام کیا ہے۔ کہ ہرفرد صبح شام ان کے گیت گائے۔

حکومت تو بس یہی چاہتی ہے۔ کہ ہمارا نام زبان زد عام ہو چاہے اچھے لفظوں میں یا برے لفظوں میں …….. واضع کرتا چلوں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباََ 75% لوگ خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے زنداگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہی لوگ جب شام کو خالی چولہے کے اردگرد بیٹھتے ہوں گے تو یقیناََ موجودہ حکومت کے گن گاتے ہوں گے…….. ہماری حکومت غربت اور علاقے کی تمام تر محرومیاں ختم کرنے کے دعوے تو بڑے دھڑے سے ٹھونستی رہتی ہیں۔ مگر عملََا کچھ نہیں کر پاتی ……… اور جو عملاََکچھ نہ کر پائیں بد قسمتی اور پستی ان کا نصیب بن جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ صفہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ موسم ایک جیسا نہیں رہتا سال میں دو موسم آتے ہیں خزاں اور بہار اسی طرح وقت بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا بدلتا رہتا ہے۔ تما م ممالک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوکر ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ہر شبعے میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے۔کہ آئے روز انکی تیار کردہ پراڈکٹس ہمارے بازاروں کی زینت بن کر ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اور ہم ان کو مہنگے داموں خرید کر اغیار کو مالی طور پر مستحکم کررہے ہیں۔ اگر ہر ملک کی پراڈکٹس کا جائزہ لیکر لکھنے لگ جائوں تو شاید میرے پاس صفحات کم پڑ جائیں گے۔اسکی ایک واضح اور روشن مثال یہ ہے۔ کہ ہر تیسرے آدمی کے پا س چائنہ برانڈ (China Brand) کا موبائل فون اور چائنہ برانڈ(China Brand)کی موٹر سائیکل ہے۔

Tax

Tax

ہمارے ملک میں موجود موبائل فون کمپنیاں بھی تو غیر ملکی مافیا ہیں۔ جوہماری حکومت کی ملی بھگت سے اپنے من مانے کالز ریٹس اور ان پر خود ساختہ ٹیکس لگا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔جبکہ حکمرانوں کی عدم توجہی اور لا پرواہی سے ہمارا ملک پستی کی جانب رواں دواں ہے۔ہماری حکومت عوام کی بھلائی کی بجائے شاہی خزانوں سے اپنی تجوریاں بھرنا جانتی ہے۔ اور غریب عوام کا خون چوسنا جانتی ہے۔

پہلے روٹی کپڑا چھینا پھر مکان مسمار کیئے
تو نے ظالم اس دھرتی کا کیسے درد شناس کیا

اپنی رعایا کو ذہنی مریض بنانا جانتی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف الیکشن سے پہلے کہتے تھے کہ ہم تجربہ کار ہیںہمیں ملک چلانے کا پتہ ہے ہم عوام کو خوشحال کردیں گے۔ مہنگائی کا خاتمہ کر کے غربت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم کر دیں گے۔ مگر افسو س کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو ایک سال میں کوئی بہتری نہیں لا سکے وہ آئندہ اپنے دور حکومت میں کیا بہتری لائیں گے۔

حکومت کی ایک سالہ کارکردگی یہ ہے کہ ہر طرف محرومیاں اپنے بال کھول کر بین کر کے حکومت کا منہ چڑا رہی ہے۔ آج تک ہم نے یہ نہیں سنا کہ دوسرے ملکوں کی حکومتوں نے روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ لگایا ہو ……. ہاں وہ حالات ایسے پیدا کر دیتی ہیں کہ روٹی کپڑے اور مکان تک مستحق افراد خود بخود رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

سجمہوریت کے دعوے دار خود لفظ جمہوریت کے معنی سے نا آشنا ہیں اگر انہیں پتہ ہوتا تو آج ملکی حالات جوں کے توں نہ ہوتے۔ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ ہو کر دعا گو ہوں کہ وہ ہمارے ملک میں کوئی مسیحا بھیجیں۔

Pakistan

Pakistan

ایسا مسیحا جو ہر کسی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے اور ہر کام کو عملی جامہ پہناکر ہمارے پیارے ملک کو ترقی کی شاہرہ پر گامزن کر کے امن و امان کا گہوارہ بنا دے۔

تحریر : سید مبارک علی شمسی
ای میل : mubarakshamsi@gmail.com