تحریر : چوہدری غلام غوث انتشار کا شکار، ہجوم اور آزادی کے طلبگار جتھے کو قوم کا درجہ ہمیشہ لیڈر دیتے ہیں۔ آزاد قوم بننے کے بعد بھی لیڈر ذہنی طور پر غلام رہیں تو قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں اور ہمیشہ احساس کمتری کا شکار اور ذہنی غلامی کے بخار میں ہی مبتلا رہتی ہیں۔ اسی طرح کے دو تاریخی واقعات جن کو ہمارے بزرگ، سابق بیوروکریٹ اور نامور ادیب مختار مسعود نے اپنی کتاب میں جگہ دی موجودہ حالات میں نئی نسل تک منتقل کرنے ضروری ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جب اس ملک کے بااختیار جمہوری وزیراعظم تھے تو امریکہ کے دورے پر گئے وہاں پاکستانی سفارتخانے نے بھٹو کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا جس کی صدارت کے لیے ہنری کسنجر کو دعوت دے دی گئی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور سفارتکاروں کی کوششوں کے پیش نظر ہنری کسنجر نے یہ دعوت قبول کر لی جو کہ ان حالات میں کسی اعزازسے کم نہیں تھی۔ لہذا سفارتی عملے نے دو دن قبل مینو تیار کرنے کے لیے اجلاس طلب کیا جس کی صدارت بھٹو نے خود فرمائی اجلاس میں دنیا بھر کے کھانوں کا جائزہ لیا گیا جو ہنری کسنجر کو مرغوب تھے کسی نے کہا کہ وہ حیدرآبادی دال کا بڑا ذکر کر رہے تھے کسی نے بتایا بھارتی سفارتخانے کے فنگشن میں اُنہوں نے پانچ چمچ بریانی کھائی کسی نے کہا کہ میں نے ان کو کیکڑے کے سوپ کے دوپیالے پیتے دیکھا۔ بھٹو صاحب کا موقف تھا کہ برف پگل رہی ہے ہم ہنری کسنجر کو مٹھی میں کر کے امریکیوں کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں چنانچہ ہمیں مینو میں ایسی حیرت انگیز چیز رکھنی چاہیئے جو کہ کسنجر کی ساری توجہ کھینچ لے سارا سفارتی عملہ سر جوڑکر بیٹھ گیا اور اس نکتے پر بحث جاری رہی اس دوران ایک صاحب نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم ان کو کالے بٹیر کھلاتے ہیں بھٹو صاحب نے تجویز کو انتہائی پسند کر تے ہوئے فوری ہاں کر دی بھٹو سمیت سارا عملہ امریکہ سے کالے بٹیر ڈھونڈتا رہا مگر آخر میں پتہ چلا کہ یہ پرندہ امریکہ میں نہیں پایا جاتا تو ایک سیانے نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم جہاز بھیج کر یہ بٹیر کراچی سے منگوا لیں وزیراعظم نے فوراً اس نیک کام کے لیے اپنا طیارہ وقف کر دیا طیارہ کراچی سے دوہزار بٹیرلے آیا تو پتہ چلا کہ سفارتخانے میں اس ڈش کو بنانے کا ماہر خانساماں دستیاب نہیں جہاز دوبارہ بجھوایا گیا کراچی سے خانساماں صاحب خصوصی طیارے پر تشریف لے آئے اگلے روز ڈنر تھا ساری رات اور دن سفارتی عملہ اس خانسامے کی مدد کرتا رہا جس کے نتیجے میں ڈش تیار ہوئی اس ڈِش کے ساتھ مینو کارڈ بھی تیار کیا گیا جس میں مرحوم بٹیروں کی تمام عادات، خصائل، فوائد اور لذیذپن کا نسخہ خوبصورت انگریزی میں درج تھا۔
قصہ مختصر جب رات کو ہنری کسنجر نے پاکستان ہاؤس میں قدم رنجا فرمایا تو بھٹو مرحوم کو مخاطب کر کے کہنے لگے مسٹر پرائم منسٹر میں بہت مصروف ہوں آپ لوگوں کو صرف 20 منٹ دے سکوں گا آئیے کھانے کی میز پر ہی گپ شپ لگاتے ہیں سب نے ان کے فرمان کی تائید کر دی جس کے بعد معزز مہمان ایک کرسی پر برا جمان ہو گئے سب سے پہلے ہنری کسنجر کے سامنے مینو رکھا گیا جو اُنہوں نے پڑھے بغیر گلاس کے نیچے رکھ دیا اس کے بعد لاکھوں میں پڑنے والے دُنیا کے مہنگے ترین بٹیروں کی ڈ ِش لائی گئی جسے دیکھتے ہی اُنہوں نے نو تھینکس کہا اور کھیرے کے چند ٹکڑے لئے اور اس دوران کھاتے کھاتے ہیلو ہائے ہوئی ،حال چال پوچھا گیا ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ کسنجر کی سیکرٹری آگے بڑھی اور نہایت احترام سے پوچھا سر ہمارے لیے کیا حکم ہے کسنجر نے فوری گھڑی کی طرف دیکھا اور مسکرا کے بھٹو سے کہا تھینک یو ویری مچ پرائم منسٹر دوبارہ پھر ملیں گے اور ہاتھ ہلاتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گیا شاید اس نے یہ پنجابی کا محاورہ سن رکھا تھا ”انہے ہتھ بٹیرا” دوسرا تاریخی واقعہ ملکہ انربتھ برطانیہ کی ضیافت جو کہ لاہور کے گورنر ہاؤس میں ان کے اعزاز میں دی گئی اس کا مینو تیار کرنے کے لیے طلب کیے گئے اجلاس کی روداد ہے اس اجلاس کی باقاعدہ صدارت گورنر پنجاب نے خود فرمائی اور ان کی اہلیہ محترمہ اس اجلاس میں بطور کو آرڈینٹر شریک ہوئیں، اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس کے بعد سیکرٹری صاحب نے ان تمام کھانوں کی فہرست پڑھ کر سنائی جو ملکہء عالیہ کو زندگی میں مرغوب رہے۔
فہرست کے اختتامی لمحات پر جب سیکرٹری صاحب نے بڑے فخر سے حاضرین کی طرف دیکھا تو صدر مجلس نے پوچھ ہی لیا کہ جناب نے یہ لسٹ کہاں سے لی تو اُنہوں نے کندھے اُچکاتے ہوئے بڑے ناز اور انداز سے کہا سر میں جب برطانیہ میں زیرِ تعلیم تھا تو ملکہ کا شیف میرا لینڈ لارڈ تھا چھٹی کے روز ہم ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ کرتے یہ ساری معلومات اُن ملاقاتوں کا حاصل ہے جو میں اپنی ڈائری میں لکھتا رہا، گڈ ویری گڈ، گورنر صاحب بولے اور اس ساری کارروائی کی داد دی سیکرٹری تھوڑا سا جھُکا اور تھینک یو کہہ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد کونے سے ایک اور مہا کلاکار صاحب اُٹھے اور کوٹ کی جیب سے لسٹ نکال کر پڑھنی شروع کر دی صدر نے وسیع معلومات پر تعجب سے پوچھ لیا ذرائع کیا ہیں صاحب مُسکرائے اور انکشاف فرمایا میں نے یہ ساری مستند معلومات شاہی خاندان کے افراد کے انٹرویوز اور اخبارات میں شائع ہونے والی شاہی ضیافتوں کی رودادوں سے جمع کیں کیونکہ مجھے دُنیا کے تمام بڑے لوگوں کی دلچسپیاں ،پسند و ناپسند، کھیل اور کھانے کی معلومات جمع کرنے کا شوق ہے، لہذا میں غیر مُلکی اخبارات سے ایسی معلومات افروزہ خبریں کاٹ لیتا ہوں گورنر نے شاباش دی تیسرے خانساماں ٹائپ بابو نے بھی فہرست نکالی اور پڑھنا شروع کر دی گورنر نے اختتام پر معلومات کے ذرائع پوچھے تو پوری کہانی گھڑ دی الغرض تمام شرکاء نے ایک ایک فہرست اپنی اپنی جیبوں کی زینت بنا رکھی تھی جو اس اجلاس میں پڑھ کر سنائی گئی اتنی ساری معلومات کے بعد گورنر صاحب تذبذب کا شکار ہو گئے فیصلہ کرنے میں دُشواری نظر آنے لگی وہاں پر بھی گورنر صاحب کا وژن اور حاضر دماغی کام دکھا گئی اور حتمی فیصلہ ہوا کہ ان تمام فہرست ہائے میں جو ڈشیں مشترک ہیں وہ ملکہ عالیہ کے لیے مینو میں شامل کر دی جائیں جو کہ اجلاس کے آخر پر اعلامیہ جاری ہوا تو صرف 19 قسم کے کھانے تھے۔
قارئین! کھانا تیار ہوا مگر ملاحظہ فرمائیں کہ ہنری کسنجر اور ملکہ الزبتھ کی نفسیات میں کتنی مماثلت پائی جاتی ہے ملکہ عالیہ جب ضیافت کے لیے ہال میں داخل ہوئیں تو ان کے سیکرٹری نے آگے بڑھ کر گورنر کے کان میں سرگوشی کی ”ملکہ کا پرہیزی کھانا لندن سے آتا ہے پلیز ان سے کھانے کے لیے اصرار نہ کیجئے گا” اور گورنر صاحب بہادر نگران تاجِ برطانیہ سمیت تمام منتظمین کے چہرے دھواں ہو گئے۔ میری قوم ان دو واقعات کو پڑھ کر یہ بات دہن نشین کر لے غلامی جسمانی مجبوری نہیں ہوتی ذہنی اور فکری معذوری ہوتی ہے جو لوگ اور قومیں فکری سطح پر معذور ہوں اُن پر وقت کبھی نہیں بدلا کرتا اور وہ حکمرانوں کو بدل بدل کر بھی بحیثیت قوم نہیں بدل سکتے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ راکھ سو برس بعد بھی راکھ ہی رہتی ہے۔