اعتدال پر ملال

Moderate

Moderate

تحریر : ممتاز ملک. پیرس

اللہ حسین ہے اور وہ حسن کو پسند فرماتا ہے۔ حسن کیا ہے ؟ حسن دیکھنے والے کی آنکھ کا ایک زاویہ ہے ، ذہن کی کوئی اختراع ہے یا اعتدال اور توازن کا کوئی امتزاج ۔ تو یقینا یہ اعتدال و توازن کے میل کا ہی نام ہے ۔ اس کا ثبوت اللہ کا اپنی مقدس کتاب میں بار بار اعتدال پر رہنے کا حکم ہے ۔ جب تک ہم نے اس حکم کی پاسداری کی ہماری زندگیوں میں سکون رہا۔ جیسے ہی ہم اس حد کو پار کرتے ہیں، بے سکونی ، پریشانیاں اور جرائم ہماری زندگی میں ناگ کی طرح پھن پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے بجلی کے سوئچ کا احتیاط اور حفاظتی طریقے سے سوئچ بورڈ میں لگایا جانا اس کے کرنٹ کو بحفاظت ہمارے آلات کو کام میں لاتا ہے تو وہی سوئچ بورڑ اگر ڈائریکٹ انگلیوں سے یا بے احتیاطی سے چھو لیا جائے تو وہی کرنٹ منٹوں میں کسی بھی چیز کو جلا کر خاکستر کر دیگا۔

سمندر جب تک اپنی حد کے اندر رہتا ہے ہماری زندگیوں کے لیئے نعمتیں پالتا ہے جوں ہی یہ اپنی حدود سے باہر نکلتا ہے تو سونامی برپا کر دیتا ہے ۔ جو ہر شے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ یہ ہی حال ہمارے رشتوں کا بھی ہے ۔ رشتے جب جائز حدود سے باہر جانے لگتے ہیں تو ذلت و تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

مشرقی معاشروں میں جہاں اب آذاد خیالی کا چلن اس قدر عام ہو چلا ہے کہ اکثر برائیوں کو بھی کہیں فیشن اور کہیں مجبوری سمجھ کر ،کہیں ضرورت اور کہیں جدت سمجھ کر قبولیت کی سند عطا کی جا رہی ہے . ہمارے معاشرے میں جہاں ہم مذہب کا دکھاوا بھی کرتے ہیں اور نیکی کا زبانی پرچار بھی خوب زوروں پر ہوتا ہے وہاں اب حرمت کی بات کرنا یا اللہ تعالی کی بتائی ہوئی حدود کا ذکر کرنا بھی گویا اپنے گلے جنجال ڈالنے والی بات بن چکی ہے . پہلے جہاں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین و حضرات بے راہ روی اور ناجائز رشتوں کے عذاب میں مبتلا سمجھے جاتے تھے وہاں تو اب عام گھریلو خواتین اپنے گھروں کے دروازوں میں شوہروں کے دوستوں اور ملاقاتیوں کو یوں بے دھڑک تن تنہا داخل کر رہی ہیں کہ ان کے کردار پر کوئی بھی دھبہ باآسانی قبول کیا جا سکتا ہے . . پردہ تو چھوڑیئے اب تو گھروں میں ہی باقاعدہ قحبہ خانوں جیسا ماحول بنتا جا رہا ہے۔

ملک میں ہڈ حرام اور کام چور مردوں کا بڑی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے .جو کہیں بہن بھائیوں کا مال نچوڑ کر اس پر عیش کر رہے ہیں تو کہیں اپنی بیوی و بیٹیوں کو پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بنا کر ملائی کھا رہے ہیں . ایسے لوگوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں ہے وہ مردوزن جو بنا کسی کاروبار یا روزگار کے بہترین پہننے کے مرض میں مبتلا ہیں ، بہترین ہوٹلوں اور کھانوں کے شوق میں مبتلا ہیں ، ہر دم بے مقصد و بیکار پائے جاتےہیں لیکن اس کے باوجود موج اڑا رہے ہیںتو جان جائیے کہ یہ سب حرام کے راستوں سے حاصل کیا جا رہا ہے۔

ان کی اولادیں انکی خوشی و رضا سے ہی گناہوں کے گٹر میں غوطے کھا رہی ہیں . ان میں اکثر کسی کے قتل اور ہنگامے کی خبر آتی ہے تو حیران مت ہوں یہ کسی غیرت کا شاخسانہ ہر گز نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی جلن یا مال میں حصہ داری کے کم ملنے کا نتیجہ ہوتا ہے . ان کے نزدیک عزت تو گھر کی مولی ہے اسے کسی بھی وقت اگایا جا سکتا ہے جبکہ پیسہ ان کا ایمان ہے وہ کہیں سے آئے، کسی بھی قیمت پر آئے بس اس کا راستہ کھلا رہنا چاہیئے.۔۔ اس لیئے ضروری ہے کہ زندگی کو اعتدال پر لائیے ورنہ یہ بس ملال ہی رہ جائے گی۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک. پیرس