جدید تہذیب اور جمہوریت زدہ پاکستانی

Imran Tahir Nawaz

Imran Tahir Nawaz

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
پڑھتے اور سنتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں اور یہ کہ اکیسویں صدی سائنس، تہذیب اور جدت کی ہے کہ جب خاکی جسم نے زمین پر رہ کر کائنات کے لاکھوں میل دور سیاروں پر ہونے والی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھنا شروع کر دی ہے۔ جب فاصلے سمٹ کر ایک مٹھی میں آگئے ہیں اور انگلیوں کی حرکت پر کوئی بھی شخص دنیا کے ایک کونے سے شروع ہو کر دوسرے کونے تک کا جائزہ لے سکتا ہے جب ہوا میں گولی کی رفتار سے بھی تیز سفر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور جب پس پردہ حرکات و سکنات کو دیکھا جانے لگا ہے یہ اکیسویں صدی کا زمانہ ہے اس زمانہ میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ زمین پر بسنے والی انتہائی ذہین ترین مخلوق اپنے معاشرتی نظام میں کوئی ایسی تبدیلیاں ایجاد کرتی کہ پتھروں کے دوراور جنگل کی سوچ سے باہر نکل کر اس نظام کی بنیاد رکھتی جس سے یہاں امن شانتی کا دوردورہ ہوتا کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے گریبا ں پر ہاتھ نہ اٹھاتا کسی دوسرے کی حق تلفی، رائے کو کچلنے کا کوئی قدم نہ اٹھاتا۔ قتل وغارت گری کا سلسلہ ختم ہوتا۔

باہمی تنازعات دم توڑ جاتے ہیں معاشرے خوشحالی کی جانب خود بخود رواں دواں ہوتے ہر طرف خوشی کے شادیانے بجتے اس خاکی جسم کو پتہ ہوتا کہ انسانیت کس چیز کا نام ہے اور انسان کس مقدس مخلوق کو کہا جاتا ہے مگر اﷲ کریم کی خوبصور ت تخلیق انسان نے شعور اور سوچ کی طاقت کو مثبت اور مفید کاموں کیلئے کم کم ہی استعمال کیا ہے۔ حتیٰ کہ حضرت انسان نے اﷲ کا پیغام انسانیت لیکر آنے والی مقدس اور معصوم ہستیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا اور جانتے ہوئے بھی کہ اس کا قیام اس زمین پر عارضی ہے اپنی جھوٹی انا کے حصار سے باہر آنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہر غلط کام اور ہر بری راہ کو اپنا کر ذہنی سکون تلاش کرنا چاہا ہے جھوٹی شان وشوکت اور رعب ودبدبہ، جھوٹی بادشاہت کے نتیجہ میں کبھی فرعون تو کبھی نمرود بن کر سامنے آنے والا یہی خاکی پتلہ مٹی کیساتھ مٹی ہوگیامگر تاریخ سے اس نے کبھی سبق حاصل کرنا ہی نہیں چاہا اور دور جدید کے ظالم نئے نئے روپ میں سامنے آرہے ہیں کبھی امن وامان کے قیام کے نام پر توکبھی جمہوریت کے نفاذ پر انسانیت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔

خود پر امن پسند، تہذیب یافتہ ہونے کا لیبل لگا کر دوسروں کو شدت پسند اور دہشت گردوں کے القاب سے نواز کر انسانی اقدار کو ملیامیٹ کیا جارہا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں ہونے کا زعم رکھنے والوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرنے کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کو مثبت سرگرمیوں اور انسانیت کے احترام کیلئے استعمال نہیں کیا۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی ،بھارت اور دیگر ایسی چند ریاستوں نے کمزور ریاستوں پر اپنی طاقت کو آزما کر وہاں موجود اپنے ہی جیسے انسانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے اور اس پر دنیا بھر کے اربوں انسانوں کو مطمئن کرنے کا جو طریقہ اختیار کررکھا ہے اس سے واضح طور پر انسانی معاشرے کو جنگلی معاشرہ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ جیسے جنگل میں طاقتور کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ایسے ہی ان طاقتوں اور شخصیات کو کوئی پوچھنے والا نہیں وہ جی چاہے کریں۔انسانی معاشروں کیلئے بنائے گئے قوانین اور آئین کی کتابیں ان کرداروں کے سامنے کھلنے سے قاصر ہیں، طاقتوروں کے ایسے رویے اور کردار معاشرہ میں منافقت ،فریب ،بے حسی،بدامنی، دھوکہ دہی اور خباثت کو پروان چڑھارہے ہیں۔ منافقت کا عالم یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بعض نے طاقتوروں کی خوشامدوں میں عافیت تلاش کرلی ہے اور وہ اپنے جیسے دوسرے کمزوروں کیلئے نقصان کا موجب بنتے ہیں جبکہ بے حسی ایسی ہے کہ غور و فکر کی عادت سے چھٹکارا حاصل کر لیا گیا ہے اور قوت مشاہدہ جواب دے گئی ہے۔

Nawaz Sharif Security

Nawaz Sharif Security

سب جانتے ہوئے بھی کہ چند خاندان انہیں استعمال کر کے ہمیشہ سے موجیں کر رہے ہیں اور کبھی جمہوریت تو کبھی کسی نام پر ان کے حقوق سلب کئے جاتے ہیں اور تمام تر ظلم وزیادتیوں کے بعد بھی مظلوموںاور قابل رحم طبقات کی طرف سے ان خاندانوں کی حمایت کو وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں صورتحال انتہائی بدترین ہے جہاں چند نام نہاد جمہوری خاندانوں نے خطہ کو انسانوںکے قبیلوں، گروہوں اور خاندانوں کو سوچی سمجھی سازشوں کے تحت تعلیم سے دور رکھا وہ نفسیاتی طور پر ان خاندانوں کے غلام بن کررہ گئے ہیں ان کی سوچ بھی اس قسم کے پولیو کا شکار ہوچکی ہے جس سے غیرت وحمیت کا جنازہ نکل جاتا ہے اور پھر ایسے علاقے جہاں اس قسم کے لوگوں کی بہتات ہو وہ ضمیر کی مردہ لاشوں کے چلتے پھرتے قبرستان کی صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوغلامی اور خوشامد پسندی کی زندگی میں اس قدر مزہ آتا ہے کہ ان کوباعزت زندگی کی رونقوں اور مسرتوں سے کوئی غرض باقی نہیں رہتی وہ سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کی قوت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ہمارے ہاں قوم کے افراد نے اپنی وقعت خود زیرو کررکھی ہے کوئی کسی پلید کے آگے سرجھکا کر بیٹھا ہوا ہے تو کوئی کسی کو اپنا قبلہ بنا کر، کہیں کسی خبیث کے ہاتھ منہ چومے جاتے ہیں تو کہیں انہیں سرآنکھوں پر بٹھا کر رکھنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔بے ضمیری کی شان دیکھیں کہ اچھے خاصے عزت دار نظر آنے والے افراد وفادار جانور کی طرح ان انسانیت دشمن شخصیات کے آگے پیچھے اوپر نیچے ہوتے نظر آتے ہیں۔

ایسے معاشرہ میں جہاں لوگ چھوٹے چھوٹے مقاصد سے ہی مطمئن ہوں اس معاشرے کو زندہ ضمیر لوگوں کے معاشرہ سے کسی صورت تشبیہہ نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کو چند خاندانوں نے عرصہ دراز سے سیاسی مقاصد کی تجربہ گاہ بنا کر قوم کو واضح طبقات میں تفریق کررکھا ہے ایک طبقہ دوسرے افراد کے خلاف کیچڑ اچھالنے اور گریباں چاک کرنے میں مصروف ہے تو چند سیاسی وڈیرے روز آخرت اور احتساب سے بے خوف تماشہ گیر بن کر پس پردہ اس قوم کے ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوس اقتدارمیں مبتلا چند خاندانوںاور ریاستوں نے پوری دنیا کا امن وسکون تباہ کررکھا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کے نام پر تو انسانیت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے جہاں بے ایمانی، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی کو آزادی ہے جمہوریت دشمنی کے نام پر انسانوں کو قید میں ڈالنے اور موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی نہیں گریز کیا جاتا۔

یہاں اکیسویں صدی کے لوگ بھی چند خاندانوں کی بھیڑ بکریاں بنے ہوئے ہیں۔غاروں اور پتھروں کے زمانے کی سوچ کے حامل افراد غلامی پسند زندگی گزارنے میں خوش نظر آتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کی اپنی ذاتی کوئی سوچ نہیں اور جمہوریت زدہ (خوشامدی) چند پاکستانی حقائق جانتے ہوئے بھی حق سچ کے فروغ کی بجائے ایک دوسرے کو غلامی درغلامی کے درس دیکر گمراہیوں میں اضافہ کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ترقی نام کی کوئی چیز ڈھونڈتے سے نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔اور یہی سلسلہ چلتا رہا اور لوگوں نے چند خاندانوں کی بے جا غلامی سے باہر نکلنے کی تگ ودو نہ کی تو ملک پاکستان آنے والے ہزار سال میں بھی ترقی نہیں کر سکتا۔

Asif langove

Asif langove

تحریر : عقیل احمد خان لودھی