آہ! محسن نقوی شہید

Mohsin Naqvi Shaheed

Mohsin Naqvi Shaheed

جنوبی پنجاب شعراء اور ادباء کے لحاظ سے زرخیز خطہ ہے۔ یہاں سے جنم لینے والے شعراء ادباء اور سیاسی و روحانی شخصیات نے ملکی اور غیر ملکی لیول پر اپنی دھرتی (سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب) کی بھر پور نمائندگی کی۔ قادرالکلام شاعر محسن نقوی کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔

محسن نقوی نے 6 مئی 1947 ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں سید چراغ حسن نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی۔ انکا خاندانی نام سید محسن عباس تھا۔ ابتدائی تعلیم ڈیرہ غازی خاں سے ہی حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجوایشن اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میںسب سے بڑے تھے۔

محسن نقوی ابھی ایم اے (اردو) فائنل ائیر میں تھے تو ان کا پہلا مجموعہ ” بند قبا” شائع ہو گیا تھا۔ پہلے مجموعے کی اشاعت کے بعدمحسن نقوی سرائیکی وسیب ملتان اور گردو نواح کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گئے۔ اسی دوران انکا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے قائم ہو گیا اور قادرالکلام شاعر و عظیم لیڈر محسن نقوی نے پاکستان پیپلزپارٹی کی PSF کو مضبوط کرنے میں اپنا بھر پور اور اہم کردار ادا کیا۔ پارٹی کی خاطر لاٹھیاں کھائیں اور متعدد بار جیل میں گئے۔ کئی کئی مہینے پاکستان کی مختلف جیلوں میں نظر بند بھی رہے مگر اپنے مقصد سے نہ ہٹے اور نہ ہی پارٹی کو چھوڑا ۔ محسن نقوی کی پارٹی سے بے لوث محبت اور انتھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے غریبوں کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں محسن نقوی کو پارٹی ٹکٹ دیا مگر بدقسمتی سے الیکشن ملتوی ہو گئے۔ محسن نقوی دیکھتے ہی دیکھتے ریڈیو، ٹی وی، اخبارات ، ادبی رسائل و جرائد غرض ہر جگہ مشہور و معروف ہو گئے اور شہرت کی دیوی ان پر مہربان ہوتی چلی گئی اور ملک بھر کے ادبی حلقوں میںا نکا نامشہور ہوتا گیا۔ یوں محسن نقوی شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے۔ محسن نقوی جدید شاعر تھے مگر روایت سے بحر نہیں نکالتے تھے۔

Mohsin Naqvi Shaheed, Poetry

Mohsin Naqvi Shaheed, Poetry

محسن نقوی محفل کے آدمی تھے۔ انکے چہرے پر روحانیت چھلکتی نظرآتی تھی۔ انکا اسلوب منفرد، لہجہ توانا اور کلام پر اثر اور آواز میں درد و سنور تھا۔ غم دوراں اور غم جاناں کے ساتھ انکی اسلامی اور کربلائی شاعری بھی بہت متاثر کن ہے انکی لکھی ہوئی حمد، نعت اور منقبت امام حسین علیہ السلام پڑھ کر قاری روحانیت کی گہرائی تک جا پہنچتا ہے۔ محسن نقوی نے اپنے ہم عصر اور سنئیر شاعروں کا خوب مطالعہ کیا تھا ضیاء ساجد نے مورخہ 13 اپریل 1994 ء میں محسن نقوی کے فن و شخصیت پہ ایک کتاب” کئی باتیں ضروری رہ گئیں” شائع کی جسے علمی وادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ پاکستان کے گلو کار غلام علی نے محسن نقوی کی غزل ” یہ دل یہ پاگل دل میرا” گا کر اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیااور محسن نقوی کو عالمی سطح پر متعارف کرا کر مشہور کر دیااس کے بعد ہر مشاعرے میں ” آوارگی ” کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

پاکستان کے فن گائیکی کے بے تاج بادشاہ اور انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ نصرت فتح علیخاں نے قادرالکلام شاعر محسن نقوی کی غزل ” کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا” گائی جو خاں صاحب کو شہرت کے ساتویں آسماں تک لے گئی اور نصرت فتح علی خاں کو برطانیہ گورنمنٹ کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی ملا۔

محسن نقوی نے بے نظیر بھٹو شہید پہ ایک نظم ” یااللہ ، یا رسول ۖبے نظیر بے قصور” لکھی جس پر انہیں 14 اگست1947 ئ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) ملا جس سے سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کے سر فخر سے بلند ہو گئے۔ محسن نقوی نے فلم ساز سردار بھٹی کی بھر پور فرمائش پر فلم” بازارحسن” کے لیئے ایک گیت” لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے” لکھا جس پر انہیں نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا اور بعد میں محسن نقوی نے فلم ” دھڑکن” کے لیئے بھی گیت تحریر کئے مگر پروڈیوسر نے کہا کہ فلم کے لیئے سنجیدہ گیت موزوں نہیںتو محسن نقوی نے انکی فلم کے لیئے مزید گیت لکھنے سے انکار کر دیا۔ یوں محسن نقوی کا شمار دنیا کے بڑے گیت نگاروں میں ہونے لگا۔ محسن نقوی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ میں میر غالب، انیس سے روایتی شعور کا سہارا لے کر علامہ اقبال ، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، فراق گور کھپوری اور احمد ندیم قاسمی تک استفادہ کرتا ہوںانہیں مسلسل پڑھتا ہوں اور ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔

محسن نقوی دیکھتے ہی دیکھتے۔۔۔۔۔۔ دس کتب کے منصف بن گئے جنکے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

(١) برگ صحر (٢) موج ادراک (٣) عذاب دید (٤) طلوع اشک (٥) فرات فکر
(٦) حق ایلیائ (٧) رداء خواب (٨) رخت شب (٩) ریزہ حرف (١٠) خیمہ ء جاں
قادرالکلام شاعر محسن نقوی نڈر اور بے باک انسان تھے اور دہشت گردوں کے خلاف تھے۔

دہشت گروں کے خلاف قلمی جہاد بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اور دہشت گروں سے نمٹنے کے لیئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ طاغوتی طاقتیں ان کے خلاف تھیں اور انہیں مارنے کے لیئے تلی ہوئیں تھیں۔ طاغوتی طاقتوں کو پتہ تھاکہ اگر یہ شخص اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہو گیا تو کل کو یہ ہمارے درمیان آہنی دیوار کھڑی کر دے گا۔ سو دہشت گردوں نے باہم صلاح مشورہ ہو کر ایک منصوبہ بنایا جس میں وہ سو فیصد کامیاب ہو گئے۔ اور قادرالکلام شاعر محسن نقوی کو دہشت گردوں نے 15 جنوری1996 ء کو ان کے گھر کے باہر لاہور میں شہید کر دیا۔ (اناللہ و انا الیہ راجیون) اللہ پاک انہیں جواررحمت میں جگہ دیں(آمین)۔محسن نقوی اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں مگر وہ اپنے کلام کی وجہ سے اب بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ
سفر تو خیر کٹ گیا
میں کرچیوں میںبٹ گیا۔
آئیں محسن نقوی شہید کے کچھ اشعار مل کر پڑھتے ہیں۔
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روزنہ کنکر اٹھا کے لا۔
ہم بھی چنتے تھے سیپیاں اکثر
ہم بھی مقروض ہیںسمندر کے
آنکھوں کے گرد ماتمی حلقے
سائے جیسے جلے ہوئے گھر کے
تنقید مت کرو کہ زمانہ خراب ہے
چپ چاپ دوستوں کے چلن دیکھتے چلو۔
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا
اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
میںخود زمین ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اڑان کا ہے
یارو اسی کے دم سے ہیں مقتل کی رونقیں
قاتل کو زندگی کی دعا دینا چاہیئے
محسن طلوع اشک دلیل سحر بھی ہے
شب کٹ گئی چراغ بجھا دینا چاہیے۔
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے۔

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

تحریر : سید مبارک علی شمسی
ای میل۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com