ماں کی چشم پوشی اسلام کا زوال

Mother

Mother

تحریر : شاہ بانو میر

ایک بچہ اپنے شہر کے محدث “”داخلی”” کے درس میں موجود تھا
جب انہوں نے لوگوں سے ایک حدیث کو بیان کیا
تو
بچے نے اتنے بڑے مجمع میں ٹوک دیا
اور کہا
کہ جن صاحب کے نام سے آپ نے حدیث کی سند بیان کی ہے
وہ درست نہیں ہے
وقت کا مانا ہوا محدث
دس سالہ بچے کی یہ بات سن کر
جُز بُز ہوا
اور
اس بچے کو ڈانٹ دیا
مگر
گھر جا کر جب رجوع کیا تو
بچے کی بات درست نکلی
یہ بچہ تھا وقت کا محدث اکبر
محمد بن اسمعیٰل البخاری
امام بخاری کے نام سے ان کی کتاب
شہرہ آفاق صحیح بخاری کو
اصح الکتاب بعد از قرآن کہا جاتا ہے
امام بخاری 13 شوال 194ھ بعد نماز جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے تھے
امام بخاری ابھی کمسن تھے کہ
شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا
امام بخاری کے والد اپنے وقت کے مانے ہوئے محدث تھے
اور
اسماعیل جلیل القدر علماء اور حماد بن زید کے شاگردوں میں سے تھے
اور
امام مالک کی شاگردی کا شرف بھی ان کو حاصل تھا
امام بخاری کی والدہ نے باپ کے وفات پانے کے بعد ان کی پرورش کی جانب توجہ مبذول کی
انکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے لگیں
امام بخاری نے ابھی ٹھیک سے ہوش نہیں سنبھالا تھا
کہ
ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی
اس المناک سانحے کا والدہ کو شدید صدمہ ہوا
انہوں نے بارگاہ الہیٰ میں بہت آہ وزاری کی
عجز و نیاز کا دامن پھیلا کر اپنے لاثانی بیٹے کی
بینائی کے لئے دعائیں کیں
ایک مضطرب بے وسیلہ
اور
بے سہارا ماں کی عاجزانہ دعاؤں نے
اللہ کی بارگاہ میں
قبولیت کا شرف حاصل کیا
رات کو خواب میں
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو
خواب میں دیکھتی ہیں
فرماتے ہیں
جا اے نیک خُو
تیری دعائیں قبول ہوئیں تیرے نور نظر
اور
لخت جگر کو پھر نور نظر سے نوازا گیا ہے
صبح اٹھتی ہیں تو کیا دیکھتی ہیں
بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا ہے
نیک ماں کی بہترین تربیت نے اس بچے کو
نبی پاکﷺ کی محبت کی ایسی محبت دلائی
کہ
عمر وقف کر دی حدیث کی تلاش اور اس کی تحقیق میں
عمر بھرآنکھوں کے لوٹائے جانے کا حق ادا کرتا رہا
احادیث کو لکھ لکھ کر
زبانی یاد کر کے لوگوں میں علم بانٹ کر
نوجوانی میں دو لاکھ سے زیادہ احادیث زبانی یاد کر چکے تھے
احادیث کو باقاعدہ کتابی شکل میں صحیح بخاری ان کی وہ تصنیف ہے
جس نے ان کی شخصیت کو بین القوامی طور پے شناخت دلوائی
احادیث کے اس عظیم مجموعے کی
ہر حدیث کو آپ نے غسل کر کے وضو کر کے دو نفل پڑھ کر لکھا
یہ ہے ایسی مثال جس کی تربیت ماں نے اپنی گود سے شروع کی
آج ہر تعلیمی معاملہ پر اپیل کی جاتی ہے
احتجاج کیا جاتا ہے
سکول میں بچوں کو اسلام اب غیر اسلامی لوگ پڑھائیں گے
جواب یہ ہے
کہ
اگر ماں نے اپنے بچے کو ابتدائی تعلیم گود میں دی ہوگی
انشاءاللہ
بچہ سکول ہی نہیں کہیں بھی جائے یا کچھ بھی سنے گا
وہ ضرور گھر سے ملی اپنی پکی بنیاد سے جان جائے گا
کہ
یہ سبق غلط ہے
اور
یہی اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
ہمیں آج جاگنے کی ضرورت ہے
ایک دوسرے کو جگانے کی
قرآن سے حدیث سے
اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے
اس بے ترتیب بہکے ہوئے مجہول معاشرے کی درستگی کی
مائیں واپس آئیں
اپنے فرائض کو جانیں
پہچانیں اپنی ذمہ داری کو
اسلام آج زوال پزیر کیوں ہے؟
کہ
ہمارے پاس فرحت ھاشمی نگہت ھاشمی جیسی امت کی مائیں ہیں
ان کے علاوہ بہت کم ہیں

جبکہ
اسلام کا پھیلاؤ اور اس کا شعور کسی ایک کے بس کی بات نہیں ہے
الحمد للہ
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شبانہ روز محنت سے
ملک میں ہی نہیں بین القوامی طور پر بھی
اسلام کی قندیل یوں روشن ہو رہی ہے کہ
نور کا ھالہ بڑہتا بڑہتا ہم جیسوں کو بھی اپنے حلقے میں لے آیا
الحمد للہ
آج
آج ہم جیسے بھی اپنے بونے قد کے ساتھ دین کی تشہیر کیلئے کوشاں ہیں
اللہ پاک اسلام کے بچاؤ کیلئے وقت کی ہر ماں کو جگا دے
اس کی بے مقصد مصروفیات کو مقصد سے جوڑ دے
لایعنی ذمہ داریاں نے آج عورت کو گھر سے نکالنے کی ترغیب دے کر
گھریلو نظام تہہ و بالا کر دیا ہے
خواہشات پر قابو پانے کا مشورہ نہیں دیا جاتا
بلکہ
باہر کام کرو گھر سے نکلو کا
مفت مشورہ ہر کوئی دیتا دکھائی دیتا ہے
آج عورت کو پڑھے لکھے ہوتے ہوئے اپنی توجہ کا رخ
جدید طرز کی بجائے
واپس دین اسلام کی طرف موڑنا ہوگا
ملک میں بے تحاشہ غیر ملکی ثقافت کی رنگینیاں غبار بن کر
ہمارے گھروں پر ہمارے ذہنوں پر چھا چکی ہیں
لیکن
جہاں جہاں اللہ نے اپنا حق ثابت کرنا تھا
جن جن کو اللہ نے قرآن سے جوڑ کر حدیث کے سبق پڑھا کر
بچانا تھا
ان کے لئے اہتمام وہ ذات خود ہی کر دیتی ہے
ان محترم اساتذہ کرام کی بدولت جو آج چراغ ہدایت کی صورت موجود ہیں
ان سے ہدایت کا سبق کب ممکن ہے؟
جب ماں خواہش اور طلب رکھتی ہو اپنی نسل کی بقا کیلئے
ہر نعمت ہوتے ہوئے مسائل کا نا ختم ہونے والا
طویل سلسلہ ملک پر جاری و ساری کیوں ہے؟
ملک کی بد حالی نحوست اور پریشانیاں آزمائیشیں
بڑہتی جا رہی ہیں
کیونکہ
کل کی مائیں گھر سے نکلنے سے واپسی تک
دعاؤں کیلئے جاء نماز پر بیٹھی رہتیں تھیں
آج کی ماں نے سکینت کا واحد راستہ
اپنے رب کی عبادت اس سے دعا
اور
ہدایت کی فریاد کرنی چھوڑ دی
نتیجہ
موجودہ نسل گُم ہے؟
گمشدگی کے لئے ماں پریشان نہیں
کیونکہ
“”جدت پسندی”” ماں کی بھی تو ترجیح ہے
یورپ آج ترقی کے عروج پر پہنچ کر
واپسی کے سفر کی تیاری کر رہا ہے
کل یہاں
سائیکل کے بعد تیز فتار ترقی کے لیے گاڑیاں بنائی گئیں
آج لاکھوں یورو لگا کر دوبارہ سائکل کیلئے ٹریک بنائے جا رہے ہیں
کہ
فضا میں کثافت زیادہ ہو گئی
فطرت سے ٹکراؤ
کہیں بھی کوئی بھی کرے گا
لوٹنا اصل کی طرف لازم ہے
لہٰذا
پاکستان کے گھروں میں کل کا سکون سادگی رواداری ادب احترام
جس تیزی سے غیر فطری انداز سے ختم کیا جا رہا ہے
اس میں اور کسی کا قصور ہے یا نہیں
آج کی شعوری طور پے سوئی ہوئی ماں کا قصور ضرور ہے
آج ماں کو اپنی فکر سب سے بڑھ کر ہے
کہیں لباس کی جدید تراش خراش ہے تو
کہیں عمدہ پرس
میچنگ جوتوں کی فکر
کہیں
چہرے کا فیشل تو کہیں بالوں کی سیٹنگ
الغرض
ماں کی توجہ خود پر اتنی زیادہ ہے
ایسے میں بچے کا امتحانی پرچہ وہ بھول چکی ہے
اسلام اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کےہوتے ہوئے
جتنا کمزور لاچار اور بے بس ہے
اس سے پہلے کسی دور میں نہ تھا
وجہ ہے
آج کی عورت کا کمزور ذہن
آسائشات کی حریص ماں
خالد بن ولید صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں کرتی
وہ خود جن خواہشات کی شکار بنا دی گئی
دوران حمل وہی اس کے بچے کی ذات کی پہچان بن گئیں
واپسی ہمیشہ کا اصول ہے
پاکستان میں واپسی کا سفر اب ضروری ہوچکا ہے
اب یہ ماں پر ہے کہ
راتوں کو رو رو کر اللہ سے دعائیں کر کے
اپنے بچے کوامام بخاری بناتی ہے
یا پھر
صرف دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر
خود بری الذمہ ہوکر
گلے شکوے ہی کرتی رہے گی ؟
اگر
خود اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کرے گی

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر