میونخ سکیورٹی کانفرنس شروع، یوکرائنی بحران حاوی

Munich Conference

Munich Conference

میونخ (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن شہر میونخ میں سالانہ بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس جمعہ اٹھارہ فروری سے شروع ہو گئی ہے۔ اس تین روزہ کانفرنس میں مقررین کی تقاریر میں یوکرائنی بحران کی شدت چھائی ہوئی ہے۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں رواں برس روس اور یوکرائن کے درمیان پیدا سنگین تنازعے کی واضح طور چھاپ دکھائی دے رہی ہے۔ افتتاحی اجلاس میں کی جانے والی سبھی تقاریر میں اس بحران کی شدت اور ممکنہ خطرات کو موضوع بنایا گیا۔ اس کانفرنس میں کئی ممالک کے مندوبین شریک ہیں۔ کانفرنس اتوار بیس جنوری کو اختتام پذیر ہو گی۔

اس کانفرنس میں جرمن وزیر ‌خارجہ انالینا بیئربوک نے یوکرائنی سرحدوں پر روسی فوجیوں کے اجتماع کو نہ صرف یوکرائن کے لیے ناقابلِ قبول خطرہ قرار دیا بلکہ اس سے ہر ایک متاثر ہے۔

کانفرنس میں شریک مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا کہنا تھا کہ موجودہ یوکرائنی بحران عالمی سکیورٹی کے لیے انتہائی پیچیدہ خطرہ ہے اور یہ اپنی سنگینی کے اعتبار سے سرد جنگ سے بھی زیادہ شدید قرار دیا جا سکتا ہے۔

بالٹک ریاست لٹویا کے وزیر خارجہ ایڈگر رنکیویکس نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اپنی تقریر میں کہا کہ یوکرائنی بحران کو حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بہت ضروری ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری ہے تا کہ ماسکو حکومت کو حملہ کرنے میں مشکلات کا سامنا رہے۔

ایڈگر رنکیویکس نے مسلسل دو ایام سے مشرقی یوکرائنی علاقے میں شیلنگ پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ لٹوین وزیر خارجہ نے کانفرنس میں واضح کیا کہ ابھی تک ایسے آثار دکھائی نہیں دے رہے کہ روس اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج کو پیچھے ہٹانے کے لیے کوئی مثبت اقدام اٹھا رہا ہے۔

مشرقی یوکرائن میں کییف حکومت کی فوجوں اور روس نواز باغیوں کے درمیان شیلنگ دوسرے دن بھی جاری رہنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ واشنگٹن اور مغربی اقوام نے کہا ہے کہ اس شیلنگ کو ممکنہ طور پر روس فوج کشی کا بہانہ قرار دے سکتا ہے۔

مشرقی یوکرائنی باغیوں نے جمعہ اٹھارہ فروری کو اعلان کیا کہ وہ اپنے علاقے کے شہریوں کو سرحد پار روس میں منتقل کریں گے۔ روس کی جانب سے اس مناسبت سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
روسی فوج کی جنگی مشقیں

روسی فوج کی بڑی مشقوں کا اعلان ماسکو سے وزارتِ دفاع کی جانب سے کیا گیا۔ ان میں اسٹریٹیجک جوہری ہتھیاروں کو بھی شامل کرنے کا بتایا گیا ہے۔

روسی وزارتِ دفاع کے مطابق صدر ولادیمیر پوٹن ہفتہ انیس فروری کو ان فوجی مشقوں کا خود معائنہ وزارتِ دفاع کی عمارت میں قائم آبزرویشن روم سے کریں گے۔

ان مشقوں میں جدید میزائلوں کے تجربات بھی شامل ہیں۔ ماسکو سے کیے گئے اعلان میں بتایا گیا کہ ان مشقوں کی منصوبہ بندی کچھ عرصہ قبل کی گئی تھی لیکن آغاز اب کیا جا رہا ہے۔ ان مشقوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ابھی ایک روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ روسی فوج کشی اگلے چند ایام میں ممکن ہے۔ دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ وہ فوج کشی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔