مراد علی شاہ کا فرمان

Murad Ali Shah

Murad Ali Shah

تحریر : انجنیئر افتخار چودھری

پچھلے دنوں سندھ جانے کا موقع ملا ۔قبلہ والد صاحب نے 1968 میں میر پور ماتھیلو کے پاس زمینیں خریدی تھیں یہ کوئی فوجیوں کو الاٹ شدہ زمینیں نہیں تھیں بلکہ اوپن آکشن پر لی گئی تھیں ۔واہسی پر میر پور ماتھیلو شہر سے ایک ہندو دکاندار سے کچھ سندھی ٹوپیاں اجرکیں اور چادریں خریدیں ۔بڑے پیار سے اپنی پوتیوں کو پہنائیں جدہ سے آئی مسافر ننھی پریوں کو بہت اچھی لگیں واپسی ہر ایک کالم لکھا جیوے سندھ جیوے۔

میں نے محسوس کیا کہ سندھ بدل چکا ہے موٹر ویز جدید سڑکیں تبدیلی لے آئی ہیں ۔میں نے تو سچی بات ہے یہ بھی لکھ دیا کہ سندھی پاکستان کی تمام اکائیوں سے زیادہ مہمان نواز اور پیار کرنے والے ہیں جاوید لغاری ڈھرکی میں پیر آف بھرچونڈی شریف کی مجلس میں ملے بڑا لطف آیا ا اللہ سلامت رکھے میاں مٹھا میاں جاوید اور میاں نور کا بڑی دل لگی کی ڈاکٹر خالد عباس مہر جیسے پیارے بھائی سے ملاقات ہوئی وڈیرہ سردار علی گوہر خان کے محل میں ان سے ملے نوید اور شیری گجر نے سیر کرائی افتخار لنڈ کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہوئے گویا دس پندرہ دن میں جنت جیسی سندھی سر زمین کی زیارت کی ۔ وہ سندھ جو پچاس سال پہلے غیر آباد بنجر سندھ تھا آج سونا اگلتی زمین بن چکا ہے ۔کبھی آپس میں نفرت تھی اب اس بدلے ہوئے سندھ میں اب پاکستان کی خوشبو رچ اور بس چکی ہے ۔
میں نے وہ دور بھی دیکھا جو ممتاز علی بھٹو کا دور تھا لسانی فسادات نے سندھ کے مکینوں اور آباد کاروں کے درمیان نفرتیں پیدا کر دی تھیں ۔وہ پر فتن دور کبھی نہیں بھلا سکتا کہانیاں سنا کرتے تھے کہ فلاں علاقے میں پنجابیوں کے ساتھ یہ ظلم ہو گیا لوگ اپنا سامان باندھے پنجاب واپس پلٹ رہے تھے ۔اللہ نے کیا وہ وقت گزر گیا ۔ اللہ جنت بخشے اس نفرت کے دور میں پیر آف پگارا اور گہوٹکی میں غلام محمد مہر ایک چھتر چھایا تھے۔

اس لمبی چوڑی تمہید باندھنے کے ساتھ ساتھ آئیے آپ کو جدہ لیے چلتے ہیں ۔جدہ کے کلاسیک ہوٹل کے مالک مرحوم محبوب شہزاد کے ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس ہو رہی تھی
میں نیا نیا خبریں سے منسلک ہوا تھا شائد 1995 کی بات تھی

میں بھی وہاں پہنچا برادر لطافت صدیقی مظہر صدیقی شاہد نعیم امیر محمد خان اور اسد اکرم کوریج کر نے والے یہ چند صحافی تھے جو مختلف اخبارات کی نمائیندگی کیا کرتے تھے اتفاق سے اسد اکرم کے علاؤہ تمام دوستوں کا کراچی سے تعلق تھا ۔میں نے دیکھا صحافیوں نے عبداللہ شاہ کو جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلی تھے اور آج کے وزیر اعلی مراد علی شاہ کے والد تھے انہیں صحافیوں نے گھیر رکھا تھا تابڑ توڑ سوال کیے جا رہے تھے ایم کیو ایم کا دور تھا ۔ان سے پوچھا گیا کراچی میں ماورائے قتل ہو رہے ہیں اور آپ کیا کر رہے ہیں میں نے محسوس کیا کہ عبداللہ شاہ گھبرا گئے ہیں ۔میں نے انہیں اس مصیبت سے نکالا کہا کہ سب سے پہلے آپ کو جدہ کے پاکستانیوں کی جانب سے عمرے کی ادائیگی مبارک ہو اور کراچی میں ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کے خلاف جو کوشش آپ نے کی ہے اس پر آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔یہ سن کر ان کی جان میں جان آئی لیکن صحافیوں نے ایک دم مجھ پر وار کر دیا کہ آپ کون ہوتے ہیں مبارک باد دینے والے ۔اللہ بھلا کرے چوہدری شہباز حسین کا جو منسٹر بھی رہے ہیں انہوں نے اس یلغار کو روکنے میں میری مدد کی ۔وہ چوہدری فواد حسین کے ماموں ہیں۔

یہ دو واقعات میں نے آپ کے سامنے اس لئے رکھے ہیں کہ سندھ کے دو عدد وزرائے اعلی کے دور میں کیا کچھ ہوا ۔ یعنی لسانی تفریق عروج پر تھی
کل اسی عبداللہ شاہ کے بیٹے جناب مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں کھڑے ہو کر برسوں پہلے پھیلی نفرت کو زندہ کر دیا ہے انہوں نے کہا ہے ہمیں ہند نہیں سندھ سمجھا جائے
اور اسلام آباد سے کنٹرول نہ کیا جائے بابا سندھ بھی آپ کا اسلام آباد بھی آپ کا ہے ۔اب اگر لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دے دیا ہے تو آپ سیخ پاء کیوں ہیں ؟

۔اس پیارے بھائی سے بس ایک بات پوچھنی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکز کے ہاس رہا ہی کیا ہے جو آپ گلہ کر رہے ہیں ہمارا مرکزی وزیر تعلیم صرف اسلام آباد کا وزیر ہو کر رہ گیا ہے سارا کچھ تو صوبوں کے پاس ہے ۔بلکہ سچ پوچھیں اب تو لوگ مزید صوبے بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس سلئے کہ انہیں معلوم ہے کہ صوبے ہوں گے تو مسائل حل ہوں گے ۔اس روز چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی سے ایک وفد سردار یوسف اور سینیٹر طلحہ محمود کی قیادت میں ملا ہے کہ ہزارہ کو صوبہ بنایا جائے ۔جناب وزیر اعلی آخر اس قدر تلخی آپ کے لہجے میں کیوں ہے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے پائوں کے نیچے قالین سرک رہا ہے حلیم عادل شیخ ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کررہے ہیں ارباب رحیم کے آنے سے پہ ٹی آئی اندرون سندھ مضبوط ہو رہی ہے اور 2023 میں سندھ ومراننکا ہونے والا ہے انشاللہ ۔ایک ایک اور بات بھی ہے کہ شائد پیپلز پارٹی نے طے کر لیا ہے کہ جناب آصف علی زرداری اب وفاق کی سیاست کریں گے اور نفرت کی سیاست کے لئے انہوں نے جناب مراد علی شاہ کو چن لیا ہے آپ یہاں سے پتھر مارتے جائیں ہم مرکز میں بیٹھ کر اس کو سنبھال لیں گے کبھی کبھی کہا جاتا تھا ایک بہاری سب ہے بھاری اور اب زبان زد عام ہے ایک زرداری سب پے بھاری ۔لاہوری لسی سندھی تھادل سے مار کھا گئی۔

دنیا کہ ہر ملک میں لسانی ،نسلی تعصبات ہوتے ہیں ۔سعودی عرب کے نجد کے علاقے کے لوگ اپنے آپ کو صاف و شفاف عرب کہلواتے ہیں دمام والے متعلم اور حجاز والے روشن خیال مگر ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کرتے رہتے ہیں ۔یہاں پاکستان میں بھی علاقائی تعصبات پائے جاتے ہیں ۔میرا کہنے کا مقصد ہے کہ کیا ہم لوگ اس قسم کی دوریاں ہونے کے باوجود ایک بڑی چھتری کے نیچے مل جل کر نہیں رہ سکتے ۔چند روز بعد 16 دسمبر ہے کیا ہم نے اس سانحے سے سبق نہیں سیکھا ۔ عدم برداشت ملک بنوا دیتی ہے ۔ہندو اگر مسلمانوں کا حافظہ تنگ نہ کرتے تو پاکستان نہ بنتا اور اگر بنگالیوں کو ان کا حق دیا جاتا تو بنگلہ دیش نہ بنتا۔

مراد علی شاہ کو شائد علم نہیں کہ سندھی بھائی یہاں اسلام آباد میں چھائے ہوئے ہیں سندھی بیورو کریسی اور سیاست میں برابر کردار ادا کر رہے ہیں ۔پتہ نہیں لوگ ہوائی فائر کیوں کر رہے ہیں ۔کیوں بے کار کی باتیں کی جا رہی ہیں
مراد علی شاہ کو سمجھ جانا چاہئے کہ اب سندھ ممتاز علی بھٹو دور کا سندھ نہیں ہے ۔اور نہ ہی انڈیا کی جرات ہے کہ وہ سندھ کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔اس وقت تو وہ اندرون سندھ میں چڑھ دوڑنے کی بات کیا کرتا تھا آج اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان سے محبت کرنے والی پارٹیاں طاقت پکڑ چکی ہیں ۔خود پی ٹی آئی ایک ایسی طاقت بن چکی ہے کہ اگرچہ اندرون سندھ سے سیٹیں نہیں لے سکی مگر 2018 میں مقابلہ خوب کر چکی ہے۔

لہذہ اس قسم کی باتیں کرنے سے ،،چاروں صوبے کی زنجیر،،کے نعرے کو نقصان نہ پہنچائیں اور قومی اداروں کے احترام اور حب الوطنی کی رسی تھامے آگے بڑھے
آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان آزاد جموں و کشمیر اور اب پنجاب میں بھی پارٹی سر اٹھا رہی ہے ایسے میں آپ کی اس ببھکی کو کون سی ببھکی سمجھا جائے ؟
کہتے ہیں ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مارنے کا کوئی فایدہ نہیں ہوتا۔

اب نہ وہ دور رہا کہ سندھ کی قوم پرست پارٹیاں ،،نہ کھپے،، کا نعرہ لگایا کرتی تھیں لوگوں میں تعصب تھا آج اللہ کے کرم سے پورا پاکستان ایک وحدت کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ ساری قوتیں پاکستان کی قوت ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ دشمن ہماری ان اختلافی باتوں سے فایدہ اٹھاتا ہے اسے تو آپ جیسی شخصیت کے منہ سے اس طرح کی باتوں کا انتظار رہتا ہے آج انڈین میڈیا اپنے آرمی ہیڈ کی موت کی بحث سے نکل۔کر آپ کی بات کر رہا ہے ۔ماضی میں 1971 کا سبق یاد کیجئے ۔یقین کریں اگر حق دار کو حق دے دیا جاتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا میں جناب وزیر اعلی آپ کو یہ بات کہہ کے تکلیف نہیں دینا چاہتا کہ پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا اگر جناب ذوالفقار علی بھٹو اپنی شکست مان لیتے لیکن چھوڑیے گڑھے مردے اکھاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔آپ حکومت کیجئے لیکن پاکستانیت کو تو ،،وٹے،، نہ ماریں۔

یہ پاکستان کراچی کے ساحلوں پر رہنے والوں کا بھی اسی طرح ہے جس طرح افغانستان کے بارڈر پر رہنے والے پاکستانی کا ہے ۔اس کے درخت سے پھل کھائیے درخت کاٹنے کی بات نہ کریں۔

آخر سندھ کے لوگوں کی اگر کوئی بد حالی ہے تو صاحب آپ لوگ عشروں سے اس سندھ کے حکمران ہیں آپ کو کس نے منع کیا ہے کہ اپنے لوگوں کی پسماندگی بد حالی نہ دور کریں ۔آپ بھی شہباز شریف کی طرح بھولے بادشاہ ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اقتدار ملا تو پنجاب کی حالت بدل دوں گا بابا آپ دونوں اقتدار میں رہے ہو آپ کیا یوگنڈہ میں حکومت کرتے رہے ہیں کہ موقع نہیں ملا ۔

میں نے بڑا خوشحال سندھ دیکھا ہے ستر کی دہائی میں جس فیکراٹھو میں میرے والد صاحب اور چاچا سلمان مہر جھونپڑیوں میں رہتے تھے آج سلمان وجل مہر کے بیٹے محل نما گھروں میں بیٹھے ہیں اس پاکستان سے سب نے پھل کھایا ہے۔

مراد علی شاہ صاحب سندھ کو آگے لے کر چلیں آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ کسی ہنستے بستے مہاجر پنجابی پشتون کے پاس اچھا گھر گاڑی بنگلہ ہے تو اللہ نے سندھیوں بلوچوں پختونوں کو ملک کے دیگر صوبوں میں بھی اسی شان و شوکت سے نوازا ہے ۔اپنی نسل کو اچھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجئے انہیں یہ سبق نہ دیجئے کہ تمہارا حصہ فلاں صوبے کا بندہ کھا گیا ہے ۔کیا کوئی کسی کا حق کھا سکتا ہے ؟ کبھی کوئی دوسروں کا نصیب نہیں کھا سکتا ۔جس طرح میں کسی کا حق نہیں کھا سکتا اسی طرح کوئی میرا حق نہ کھائے ۔آپ سلامت رہیں خوش رہیں ۔16 دسمبر کا واضح پیغام یہ ہے کہ کسی کا حق نہ کھائیں نہ بھٹو کسی مجیب کا حق کھائے نہ مراد علی شاہ کسی بزدار کا حق کھائے ۔اور نہ کوئی اور
سب خوشی سے رہیں۔اس موقع پر میں سندھی بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ اگر پنجاب کا وزیر اعلی عثمان بزدار منہ سے آگ نہیں اگلتا بلوچستان کا بزنجو اور کے پی کے کا محمود خان تو مراد علی شاہ کو بھی روکئے کہ وہ بھی وہ زبان نہ بولے جسے لوگ سندھ کارڈ کہتے ہیں یہ اسلام آباد اتنا ہی سندھی کا ہے جتنا پنجابی بلوچی اور خیبر ہختونخواہ جی بی کشمیر کے لوگوں کا ہے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجنیئر افتخار چودھری