مسلم ممالک اور بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کو تسلیم کریں، طالبان وزیر اعظم

Mullah Mohammad Hassan Akhund

Mullah Mohammad Hassan Akhund

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیراعظم ملا محمد حسن آخوند نے اسلامی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری سے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔

افغانستان کے قائم مقام وزیراعظم ملا محمد حسن آخوند نے کابل میں آج بدھ کے روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ تمام شرائط مکمل کردی گئی ہیں اور اب بین الاقوامی برادری ملک میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں۔

آخوند نے مزید کہا، ”میں خاص طور پر اسلامی ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور ہمیں تسلیم کریں۔” انہیں امید ہے کہ اس کے بعد ملک تیزی سے ترقی کر سکے گا۔

عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔

ملا حسن محمد آخوند نے یہ بات ملک میں شدید معاشی بحران سے نمٹنے کے حوالے سے کہی۔ گزشتہ برس ستمبر میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی یہ افغان قومی نشریاتی ادارے پر نشر کی گئی پہلی گفتگو تھی۔

بین الاقوامی امداد کی بحالی
طالبان نے پچھلے سال اگست سے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے تاہم بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ امریکا کی سربراہی میں مغربی ممالک نے افغانستان کے بینکوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی فنڈ بھی روک رکھے ہیں۔

طالبان حکومت کے حکام اور وزیراعظم آخوند نے نیوز کانفرنس کے دوران مطالبہ کیا کہ امداد کی فراہمی پر عائد پابندی میں نرمی کی جائے کیونکہ پابندی کے نتیجے میں ملک میں معاشی بحران زور پکڑ رہا ہے۔

آخوند کے بقول، ”قلیل مدتی امداد حل نہیں ہے، ہمیں بنیادی طور پر مسائل کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

معاشی بحران، ایک سنگین مسئلہ
بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں بحرانی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسانی امداد گوکہ تیزکردی ہے۔ لیکن ملک کو سخت سرد موسم، نقد رقم کی کمی، اور بگڑتی ہوئی معیشت کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے لاکھوں افراد انتہائی غربت میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس نیوز کانفرنس میں اقوام متحدہ کے اہلکار بھی موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی افغانستان کے لیے خصوصی مندوب ڈیبرا لیون نے اس دوران کہا کہ افغانستان میں معاشی بحران ایک سنگین مسئلہ ہے جسے تمام ممالک کی طرف سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، “اقوام متحدہ افغانستان کی معیشت کو بحال کرنے اور بنیادی طور پر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔”

اس موقع پر افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان حکومت عالمی برادری کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی خواہاں ہے۔