ہم زمانے بھر میں رُسوا ہوئے؟

Allama Iqbal

Allama Iqbal

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے آج سے تقریبا اَسّی نوے سال قبل مسلمانوں کی حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ”اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ” لیکن عصرِ حاضر کا مسلمان اُس وقت سے کہیں زیادہ تارکِ قرآن نظر آتا ہے۔ وہ مسلمان جنہیں دنیا کا حکمران بنا کر بھیجا گیا تھا، وہ مسلمان جنہیں خیر اُمت کا لقب دیا گیا ہے، وہ مسلمان جنہیں امامت کا بار سونپا گیا ہے، وہی مسلمان آج دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ ذلت و خواری بشمول رسوائی اس کا مقدر بن گئی ہے۔ گمنامی کے اندھیرے نے اسے چاروں سمت سے گھیر رکھا ہے۔ عصرِ حاضر میں عالمِ اسلام پر طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مسلمان ہر جگہ پسپا ہو رہے ہیں۔ کہیں انہیں گھروں سے نکالا جا رہا ہے تو کہیں دنیا بھر کے مصائب ان پر ڈالے جا رہے ہیں ‘ تو کہیں انہیں دہشت گرد کہہ کر سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے’ (معصوم عافیہ کا واقعہ ابھی تازہ ہے) جہاں مسلم لڑکے اور لڑکیاں اپنے قیمتی زندگی کے ایّام بے بسی میں گزار رہے ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ قصور وار ہم خود بھی ہیں۔ ہم غیر قوموں کو موردِ الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ آج ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہ رہے، ہم ویسے مسلمان نہ رہے جن کے ایمان و یقین کے آگے پہاڑ بھی سر جھکا دیتے تھے۔ جن کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ موت کا خوف بھی ان کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی زمانے بھر میں عزت تھی۔یہ وہ مسلمان تھے جو کردار کے غازی تھے۔ کافر بھی جن کے ایمان کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ دولت و آسائشات بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی۔

اگر عصرِ حاضر میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی وجوہات بیان کی جائیں تو الفاظ اور وقت ساتھ نہ دے۔ ہم نے قرآن کو ترک کیا، خدا کے راستے سے منہ موڑا اور دین میں فرقہ بندی کر لی۔ نتیجتاً ہم زمانے بھر میں رسوا ہوئے۔ قرآنِ کریم کا ارشادِ پاک ہے کہ: ” اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو” خدارا! غور کیجئے، کیا ہم قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں ہم دینِ اسلام ، مذہب سنتے ہیں وہیں ہمارے ذہنوں میں فرقہ بندی اور جماعت جیسے الفاظ سر اُبھارتے ہیں۔ آج ہمارا دین جماعت اور فرقوں تک محدود ہے۔ فلاں شخص فلاں جماعت کا اور فلاں شخص فلاں فرقے کا۔ یہ تعصب یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ ہم اپنے مومن بھائی (جو کہ ہماری جماعت کا مخالف ہو) کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے اور حد تو یہ ہے کہ اس تعصب سے اللہ کا گھر یعنی مسجدیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ غور کیجئے! کیا یہی ہمارا دین ہے؟ کیا قرآنِ کریم اسی تعصب کا درس دیتا ہے؟ اس کے برعکس قرآن تو کہتا ہے کہ تفرقہ میں نہ پڑو۔ آج ہم اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ہمارے پاس قرآن پڑھنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔

Quran

Quran

اوّل تو ہمیں کمانے سے فرصت نہیں، چاہے حلال طریقے سے ہو یا حرام اور جو وقت بچتا ہے اسے ہم اپنے پُر تعیش مکانوں میں ٹی وی سے لطف اندوز میں گزار دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھئے، ان میں ذرا برابر بھی اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی طرزِ معاشرت نہیں پائی جاتی ہے۔ آج ہم نے قرآن کے احکامات و ارشادات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ دینِ حقیقی سے منہ موڑ ا اور غیروں کے دین کو اپنی زندگی میں داخل کر لیا۔ جبکہ قرآنِ کریم میں اللہ نے ہمارا مقصد حیات واضح طور پر بیان فرما دیا ہے مگر ہم سمجھنے اور سمجھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
زباں سے کہہ بھی دیا لا اِلہٰ الا اللّٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

عصرِ حاضر میں اولاد کی والدین کے ساتھ نافرمانی معاشرے کا سلگتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے، لیکن اس کی ذمہ دار جتنی اولاد ہے، اتنے ہی والدین بھی ہیں، کیوں کہ فطرت کم عمری میں ہی مکمل ہو جاتی ہے۔ اگر کمسنی میں ہی والدین اولاد کو بنیادی دینی تعلیم، والدین کے حقوق کی مخلصانہ تعلیم پر مکمل توجہ دیں جیسا کہ نصابی اسکول کی تعلیم پر دیتے ہیں تو اولاد اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے والدین کے حقوق کو کما حقہ’ ادا کرے گی۔والد کی معاشی ضروریات کی تکمیل، والدہ کی گھریلو اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے والدین اولاد کی تربیت کے لئے وقت نہیں نکال پاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ ضعیفی میں والدین اولاد کی محبت اور توجہ کے لئے ترس رہے ہیں۔ اولادوں کو چاہیئے کہ وہ والدین کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر ان کی آخرت بھی سنوارے اور اپنی بھی، تبھی جا کر ہم بہتر معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ایک بات ذہن میں بار بار آتی ہے کہ آج ہم اپنے دین سے اتنے دور کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ کیوں دین کی باتیں سیکھنے کے لیئے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا؟ یا جو دین کی بات ہمیں بتائی جاتی ہے کیوں ہم اُس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں نہیں سوچتے؟ جبکہ دوسری طرف ہم دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی بات کے لیئے بھی محنت کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ جو ہم مارکیٹ سے خرید رہے ہیں وہ اچھا ملے، لیکن دین کی باتوں میں ہم ملاوٹ کی خمیر کرید کرید کر نکالنے لگتے ہیں۔کیا دین کی باتوں کی ہمارے نزدیک اتنی ہی اہمیت ہے، کیا ہم سب صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔راقم کے خیال میں ہماری دین سے دوری کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دعوتِ تبلیغ اور اللہ کے راستے کی طرف بلانے والے بہت سے فرقے اور تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں، اور ظاہر ہے کہ اُن تمام لوگوں نے دین کو اپنے اپنے طریقے سے ڈھال لیا ہے۔ اور سب اپنے اپنے طریقے سے راغب کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم بدگمانی پر مائل ہوکر (کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں ) کے مصداق سوچتے ہیں۔ دوستو! اب بھی وقت ہے ” اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو ” کہیں دیر ہوگئی اور توبہ کا دروازہ بند ہو گیا تو جہنم کے ایندھن بنائے جائو گے۔ علامہ محمد اقبال نے ایسے موقعے کے لئے یہ شعر کہا تھا:
تم سید بھی ہو’ مرزا بھی ہو’ افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو کے مسلمان بھی ہو

Muslim Mosque

Muslim Mosque

افسوس! کے اس نفسا نفسی کے دور میں ”اسلام ” آج اپنوں کے بیچ اجنبی بن گیا ہے۔ جس دین کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہمیں دی گئی تھی، آج ہم ہی اُس دین سے اجنبی بن گئے ہیں۔ ہر مسلمان پر دین کا اتنا علم سیکھنا لازمی ہے کہ وہ جان سکے کے اُس کے لئے کیا حرام ہے اور کیا حلال۔ صحیح راستہ کیا ہے اور غلط راستہ کیا؟ رب العزت کا خوف دل میں ہو تو ہر بندہ سدھر سکتا ہے، راہِ راست پر آ سکتا ہے، ہم نماز سے دور ہوتے جا رہے ہیں، مسجدیں ویران ہیں، سینما ہال آباد، درس و تبلیغ میں لوگ ناپید مگر موسیقی کے پروگراموں میں ہجوم۔ ایسی اور بہت ساری وجوہات ہیں جو ہمیں دین سے دور کر رہے ہیں۔

اسی وجہ سے ہم، آپ اور اُمتِ مسلمہ دنیا بھر میں رسوائی کی طرف گامزن ہیں۔ خدائے برزرگ و برتر ہم سب کو ٹھیک ٹھیک رہنمائی عطا فرمائے، ہم سب کو ایک مسلمان قوم بنا دے، اپنی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے والا بنائے اور خاص کر نماز قائم کرنے میں ہماری رہنمائی فرمائے اور قرآنِ مجید فرقانِ حمید کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے راستے پر چلنے والا بنا دے۔ آمین ثم آمین

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی