مسلمان کی زندگی کا مقصد

Hazrat Muhmad SAW

Hazrat Muhmad SAW

سرکار دو عالم حضرت محمدۖ نے خود یتیموں سے محبت کرکے اقوام مسلم کو یہ پیغام دیا کہ یتیموں سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور میری یعنی (حضرت محمدۖ) کی سنت ہے ۔بے شک آپۖ نے اپنی ساری زندگی حکم الٰہی کے مطابق بسر کرتے ہوئے امت پر لازام کردیا کہ حکم خداوندی پرعمل کرنا ہی مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اگر ہم خود کونبی کریمۖ کا غلام کہتے ہیں تو پھر ہم پر لازم ومظلوم ہے کہ ہم زندگی انہیں اصولوں کے مطابق گزاریں جوہمیں سیرت نبوی سے ملتے ہیں۔ میں عالم دین تو نہیں طالب علم ہوں اس لئے سرکار دو عالم حضرت محمد صلی علیہ الله وآله وسلم کی حدیث مبارکہ کو پوری طرح سمجھنا میرے لئے بہت ہی مشکل ہے۔

لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ آپۖ کی حدیث میں دین کی جو نشانیاں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ہیں وہ اٹل حقیقت ہیں ۔ہمیں احکام شریعت کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنا چاہے اور دوسرے انسانوں کو تکلیف ہرگز نہیں پہنچانی چاہئے ۔انسان کو تکلیف میں دیکھ کر اللہ تعالی کے فرشتے بھی پریشان ہوتے ہیں اور بددعا سے ڈرتے ہیں ۔جس کی مثال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے اپنے فرشتے کو انسان کی جان قبض کرنے کا حکم دیا تو وہ پریشان ہوگیا اور عرض کی یااللہ میں تمہارے حکم سے کیسے انکار کر سکتا ہوں؟ لیکن جب میں آدم کی اولاد کی جان قبض کرئوں گا تو یہ لوگ مجھے بد دعا دیں گے اور آپ نے اس مخلوق کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔

(یعنی تمام مخلوق سے بہتر مخلوق) اور اس طرح تمام لوگ مجھے گالیاں اور بددعائیں دیں گے کہ ہمارے عزیز کو مالک الموت لے گیاتو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم ان کی جان نکالو گے لیکن یہ لوگ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمارے اس عزیز کو مالک الموت لے گیا ہے بلکہ میں کوئی بہانہ بنائوں گا۔ ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا ہے اس میں بندہ اپنی کوئی مرضی نہیں کر سکتا، اب لوگ بیماریوں، ٹریفک حادثات اور لڑائیوں جھگڑوں سے مر رہے ہیں، جو بھی اس دنیا فانی سے رخصت ہوتا ہے کسی وجہ سے وہ مرتا ہے ،لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے فلاں عزیز کو مالک الموت لے گیا ہے۔

Ahlla

Ahlla

بلکہ کہتے ہیں کہ اس فرد کو فلاں بیماری تھی یا اس فرد کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے یا اللہ کو ایسے ہی منظور تھا اور اس میں اللہ کی رضا ہے اور ہم اللہ کی رضا کے سامنے کچھ نہیں کر سکتے، اس دنیا سے ہر ایک کو رخصت ہونا ہے چاہے وہ کیسے بھی ہولیکن اس نے ایک دن خالق حقیقی سے جا ملنا ہے، ہمیں بھی اپنے آپ کو اس دن کے لیے تیار کر لینا چاہیے۔ آپ صلی علیہ الله وآله وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا، اگر کوئی فرد کسی یتیم بچے کے سر پر پیار و محبت اور شفقت سے ایک مرتبہ ہاتھ پھیرتا ہے۔

اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں تو اس فرد کے اتنے سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لہذا ہمیں یتیموں کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ آپ کی حدیث ہے نہ کہ کوئی آجکل کی کہانی ۔ ایک روز آپ صلی علیہ الله وآله وسلم کے صحابی نے آپ کو بتایا کے اے اللہ کے نبی میرے بھتیجے یتیم ہیں ، ان کے ہمسائے کے گھر کھجور لگی ہے ، اگر کسی پرندے کی کھائی ہوئی کھجور نیچے گر جائے تو میرے بھتیجے اس کو اٹھا کر کھا لیں تو وہ کھجور کا مالک ان کے منہ سے نکال لیتا ہے، آپ صلی علیہ الله وآله وسلم ان کے گھر گئے اور اس فرد سے بات کی کہ مجھے یہ ٹیڑھی کھجور دے دو میں تمہیں جنت کی کھجور کی بشارت دیتا ہوں۔

وہ کھجور کا مالک کچھ عرصہ پہلے ہی مسلمان ہوا تھا، وہ بولا یہاں ہی دے دوجو اس کے بدلے دینا ہے بات کرو پتہ نہیں کون جنت جاتا ہے۔ آپ واپس آئے اور اعلان کیا، جو مجھے اس فرد سے وہ ٹیڑھی کھجور خرید کر دے گا میں اسے جنت کی کھجور کی بشارت دیتا ہوں، حضرت عثمان اس کھجور کے مالک کے پاس گئے اور اسے کہا کے مجھ سے اس کھجور کے بدلہ میں تم میرے باغ سے ایک کھجور لے لو لیکن وہ نہیں مانا آہستہ آہستہ وہ چالیس کھجوروں پر مان گیا۔

اور وہ کھجور آپ صلی علیہ الله وآله وسلم نے ان یتیم بچوں کے نام کر دی، اسی طرح آپ صلی علیہ الله وآله وسلم نے یتیموں کے ساتھ بہت ہمدردی کی۔ آپ صلی علیہ الله وآله وسلم نے خود یتیموں کے ساتھ ہمدردی کی اور ہمیں بھی یتیموں کے ساتھ ہمدردی کرنے کی تلقین کی۔اس میں انسانوں کا ہی فائدہ ہے ورنہ رازق تو اللہ ہی ہے ۔ اللہ نے ان کا رزق جہاں لکھا ہے انہیںملتا رہتا ہے۔

Rao Nasir Ali Khan

Rao Nasir Ali Khan

تحریر: رائو ناصر علی خان