سفرِ حج پنجم

Hajj Pilgrims

Hajj Pilgrims

تحریر : میر افسر امان

ہمیں مختلف ملکوں کے عازمین حج سے بات چیت کا موقع ملا۔ جس میں انڈیا افغانستان، ملائشیا، انڈونیشیا،مالی، الجزاہر، چاڈ،نائجیریا،برما،چین، ترکی وغیرہ اوردوسرے ملکوں کے مسلمان شامل ہیں۔ مختلف اوقات میں ان سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان میں ،ان کے ملکوں کے مسلمانوں کے حالات معلوم کیے۔ پاکستانیوں کی طرح سب ملکوں کے لوگ، پاکستان سے بھی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے حالات سے بھی با خبر بھی ہیں۔ ایک دن میرابیٹا مجھے فٹ پاتھ پر کچھ دیر رکھنے کے لیے چھوڑ گیا اور دکان سے میرے لیے آئی ڈراپ لایا ۔میں ویل چییر پر بیٹھا بیٹے کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک انڈونیشا کے مرد خواتین پر نظر پڑی۔ میں نے اُن سے مختلف سوال کیے۔

پھراُ ن سے اُن کے ملک کا بھی سوال کیا۔ انہوں نے کہا ہم انڈونیشیا کے ہیں۔ میں نے کہا میں پاکستانی ہوںوہ اس تعارف سے بہت خوش ہوئے۔مرد نے میرے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بھی بنائی۔اس سے ان کی پاکستان سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارے ایک روم میٹ نے غزہ کے دو عازمین حج سے ملاقات کی۔ان کے ذریعے پتہ چلا غزہ کے کچھ عازمین حج اپنے پڑوسی ملک کے ذریعے حج کے لیے آئے ہیں ۔ ہمیں بتایا گیا ہے غزہ اور مصر کے لوگوں پر آجکل حج کی پابندی ہے ۔ ایک دن ہمیں ایک دوست دو پہر کے کھانے پراپنے گھر لے گئے۔ ساتھ ١٠ لیٹر کی ٥ آپ زم زم کی بوتلیں بھی لائے تھے ۔تین ہم نے رکھ لیں اور دو روم میٹس کو گفٹ کر دیں۔ اس دوران راستے میں مکہ مکرمہ کا کمرشل اور رہائشی ایریا دیکھنے کا موقع ملا۔ ماشاء اللہ سڑکیں کشادہ ہیں۔پورے مکہ میں اونچی اونچی عمارتیں بنی ہوئی ہیںیہ پہاڑ کاٹ کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔ ہمار ے دوست عرصہ ٣٥سال سے مکہ میں رہ رہے ہیں ۔ڈاکٹر ہیں اورسعودی گورنمنٹ کے ہیلتھ ڈیپارمنٹ میں ملازم تھے۔

اب ریٹائرڈ ہوگئے ہیں ۔ اللہ کے گھر مکہ مکرمہ سے محبت کی وجہ سے اپنا مکان کرایہ پر لے کر مکہ کے ایک پوش علاقے میں زندگی کے بقایا دن گزار رہے ہیں۔ایک دن ہمارے روم میٹ اور کچھ دوسرے لوگ بیت اللہ سے ملحق نکاشہ بازار گئے اور بتایا کہ کراچی کے لالو کھیت کی طرح کابازار ہے ہر قسم کی اشیاء خوردو نوش دستیاب ہیں۔خصوصاً پان اورچائے کی دکانیں ہیں۔ ہمارے روم میٹ وہاں سے پان اور فروٹ خرید کر لائے۔ ہم اورہمارے گروپ کے لوگ ایک دن بس پرمکہ مکرمہ میں زیارتیں دیکھنے گئے۔غار ثور،غار حرا،جنت المعلیٰ،نہر زبیدہ، میدان عرفات، منی ،مزدلفہ ،حضرت اسماعیل کی ذبیع کی جگہ، جبل رحمت، مسجد جن اورمشعل الحرام (موزلفہ) دیکھیں۔سعودی حکومت حرمین شریفین اور مقدس مقامات پر دل کھول کر خرچ کرتی ہے۔

سعودی حکومت کے قائم کردہ ادار ہ الامر بامعروف والنہی عن المنکرکی طرف سے عوام کی راہنمائی کے لیے ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا جس کے مطابق جبل رحمت مختلف ناموں سے مشہور ہے۔ آس پاس کے پہاڑوں کی بہ نسبت چھوٹا پہاڑ ہے۔درمیانے حجم کے سخت اور تہ بہ تہ پتھروں پر مشتمل ہے۔نہ بہت سخت نہ بہت نرم اور بھربھرا ہے۔ میدان عرفات کے مشرقی جانب جبل سعد کے سائے میںواقع ہے۔ بلندی تقریباً٦٥ میٹر ہے۔

مختلف ناموں سے مشہور ہے۔ جبل رحمت،جبل اِلال،جبل عرفہ ، جبل مشاة،جبل کبکب اور جبل قُرین کے نام شامل ہیں۔ جبل رحمت پر عازمین حج گئے۔ اس کی چوٹی پر ایک سفید ٹاور بنا ہوا ہے جو تھوڑی دور سے بھی نظر آتا ہے۔ اس کے دامن میں سعودی حکومت کی طرف سے نوٹس بورڈ بھی لگا ہوا تھا کہ اجر و ثواب کی نیت سے جانا اور وہاں پر نوافل ادا کرنا بدعت ہے اور اس کی شریعی حیثیت نہیں اور ناجائز ہے ۔جوحیثیت میدان عرفات کی ہے،وہی اس کوبھی حاصل ہے۔مناسک حج سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔بشمول جبل رحمت ،غار حرا،غار ثوراورمیدان عرفات میں جو پہاڑ ہیں اس پر چڑھنا سنت نہیں۔ اسی طرح غارحرا پر بھی ایک بورڈ لگا ہوا ہے۔

یہاں بھی سعودی حکومت کی طرف سے اور ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔ اس کے مطابق جبل حرا مسجدِ حرام کے مشرق میں طائف کے راستے سیل پر واقع ہے۔مسجد حرام سے اس کا فاصلہ ٤ کلومیٹر ہے۔ بلندی ٢٨١ میڑ، رقبہ ٥ کلو میٹر اور اس کے چوٹی اونٹ کے کوہان کی مانند ہے۔اس کے قبلے والی جانب ایک شگاف ہے جس سے مسجدِ حرام نظر آتی ہے۔ غار حرا کی لمبائی ٣ میٹر ہے۔ حرا پہاڑ وہ ہے جہاں نبوت سے قبل نبیۖ خلوت اختیار کر کے عبادت کیاکرتے تھے۔جبرائیل پہلی بار وحی لے کر اسی پہاڑ کے غار میں اترے تھے۔یہ بات ثابت ہے کہ رسولۖاللہ نبوت عطا ہونے کے بعد غار حرا پر کبھی بھی تشریف نہیں لے گئے۔صحابہ بھی غار حرا پر تشریف نہیں لے گئے۔

Allah

Allah

اس پر چڑھا اور عبادت سمجھنا اور اس کے مقدس اور خاص رکھنا،اس کی طرف منہ کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا،اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔غار حرا کے راستے میں زاہرین کے لیے سیڑیاں بنائی گئی ہیں تاکہ لوگ آرام اور سہولت سے زیارت کر سکیں۔ ہمارے بیٹے حبیب اللہ خان اورکچھ روم میٹس نے غار حرا کی زیارت کی اور بتایا کہ وہاں بندر بھی موجود ہیں۔ اکثر لوگوں سے چیزیں چھین کر لے جاتے ہیں۔ ان کی موجود گی میںبندر ایک شخص کا بیگ اُچک کر لے گیا۔تھوڑا دور بیٹھ کر بیک کھولا اور اس میں چیزیں نکال کر بیگ واپس پھینک دیا۔اس شخص نے خالی بیگ واپس اُٹھا لیا اور سامان کو ترستا رہا اور بندر اس کے قابو نہ آیا۔ زبیدہ نامی نیک سیرت خاتون خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی تھی جب حج کرنے تشریف لائیں تو اس نے نوٹس لیا کہ مکہ مکرمہ میںحاجیوں کو پانی کی اشد ضرورت ہے۔

واپس دالالخلافہ بغدادجا کر فوراً دریائے دجلہ سے مکہ مکرمہ تک نہر بنانے کاحکم دیا۔جو جلد ہنگامی بنیادوں پر تیار کر دی گئی۔ تین میٹر گہر ی پونے دو میٹر چوڑی تھی۔ بقول کچھ حضرات اس کی لمبائی کئی ہزار کلومیٹرہے جس میں سنگلاخ پہاڑ اورکوفہ سے مکہ مکرمہ ١٣٠٠ کلومیٹر صحراحی علاقہ بھی شامل ہے اس سے کافی مدت یعنی تقریباً ایک ہزار تک مکہ مکرمہ کے لوگ اور عازمین حج فائدہ اُٹھاتے رہے۔ نہر زبیدہ خلیفہ ہارون رشید کے دور حکومت١٧٠۔١٩٣ھ میں دریا دجلہ سے مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے بنائی گئی تھی جو اب سوک چکی ہے۔اس کی دیواریں بھی دیکھی جو پہاڑ توڑ کر بنائی گئی تھیں جو یقیناًایک عجوبہ ہے۔

اگر یہ بات صحیح ہے تو اس نہر کو دنیا کا عجوبہ کیوں نہ قرار دیا گیا جیسے شاہراہ ریشم کو قرار دیا گیا ہے؟ منیٰ میں جانے سے چند روز پہلے ہمارے ایک روم میٹ جناب سیدطارق محمود رضوی کوحج مشن پاکستان منطقہ عزیزہ کے سیکٹر کمانڈر نے بلایا۔ہماری بلڈنگ نمبر ٦٠٥ میں سے ایسے تین دوسرے حضرات کو بھی بلا کر ڈیوٹی تفویض کی کہ حج کے موقعے پر ان چار حضرات نے اپنے گروپ کے عازمین حج کی رہنمائی کرنی ہے ۔اس طرح کے نمائندے پورے پاکستانی عازمیں حج کے مکاتب سے بلاکر ان کی تربیت کی گئی تاکہ حج کے دوران آسانی رہے۔ا ن حضرات کو منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کا دورہ کرایا گیا۔ ہمارے گروپ کے فرد کو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ پر جانے اور آنے کے راستے بتائے گئے۔

منیٰ کے خیموں،اندرونی سڑکوں ،پولوں ، لیٹرینوں وغیرہ کا دورہ کرایا گیا۔منیٰ سے عرفات تک چلنے والی ٹرین کا بھی دورہ کرایا گیا اور یہ ہدایت دی گئی کے اپنے گروپ سے ہر گز علیحدہ نہ ہوا جائے ورنہ گروپ سے بچھڑ جانے کا خدشہ ہے اور ٥ دن تک واپس ملنے کا امکان نہیں۔ منیٰ میںٹرین کے تین اسٹیشن ہیں۔ ریلوے اسٹیشنز پر نمبرزصا ف صاف لکھے ہوئے ہیں ۔اسٹیشن نمبر١، اسٹیشن نمبر ٢ اور اسٹیشن نمبر ٣۔ عازمین حج کو ان اسٹیشنوں سے سفر کرنے کے لیے تین رنگ کے کڑے بازو میں باندھنے کے لیے دیے جائیں گے جو اب دے دیے گئے ہیں۔کڑوں کے رنگ کے مطابق اسٹیشنوں کا نمبر بتا دیا جائیگا اور اسی نمبر پر سفر کی اجازت ہو گی۔ اگر دوسرے نمبر کے اسٹیشن پر سفر کرنے کی کوشش کی گئی تو شرتے ٹرین پر سفر نہیں کرنے دیں گے اور ٹرین سے اُتار دیں گے۔

لہٰذا اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ جس رنگ کے کڑے کو جس نمبر کے اسٹیشن سے سفر کرنے کا کہا گیا اسی ٹرین اسیٹشن پر سفر کے لیے جانا ہے۔اپنے گروپ کے ساتھ ٹرین میں اکھٹے سوار ہونے سے اس پریشانی سے بچنا ممکن ہے۔ معلم کی طرف سے منیٰ اور عرفات میں قیام کے دوران ناشتے اور رات کے کھانے کے٩ کوپن عازمین حج میں تقسیم کیے گئے ہیں جس میں دوپہر کے کھانے کے کوپنز نہیں ہیں، مطلب کہ دوپہر کا کھانا نہیں ملے گا۔ہمارے گروپ لیڈر نے ٨ ذوالحج سے ١٢ ذوالحج کے منیٰ ،عرفات اور مرذلفہ کے دنوں کے لیے ایک مشاورتی میٹنگ بلائی جس میں گروپ کے ساتھیوں نے اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں گفتگو کی۔ مشاورت سے گروپ کے ساتھ ساتھ رہنے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا طے ہوا۔گروپ کے ہراول دستہ جو چار افراد پر مشتمل تھا کو تمام جگہوں کا دورہ کرنے کا کہا گیا۔ ہراول دستے نے دورہ کر کے گروپ کے مردو خواتین کو صورت حال سے آگاہ کیا اورراہنمائی کے اصول طے گئے۔

قارئین! مقدس مقامات تو مقدس ہوتے ان سے عقیدت بھی یقیناً ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ ان کی زیارت بھی کرنا چاہیے ۔ ان کی زیارت کر کے ان حالات کو یاد بھی کرنا چاہیے جو ہماری روایات کا حصہ ہیں۔ مگر سعودی حکومت نے وہاں نفل پڑھنے سے منع کیا جو شرک ہے۔ اللہ مسلمانوں کو شرک سے بچائے۔ کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔(باقی آیندہ)

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com
www.mifafsaramanfacebookcom