ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

Palestine Killing

Palestine Killing

انبیاء و اوصیاء کے حوالے سے اس انتہائی زرخیز خطے اور اس کے باسیوں سے مسلمانانِ عالم کی قلبی نسبت وانسیت کوئی حیرت انگیز واقعہ ہر گز نہیں۔قبلہ اول کے سبب سے بھی یہ بستی ہمارے دلوں میں بستی ہے۔ اوپر سے اس کی لگ بھگ ستر برس کی مظلومانہ تاریخ نے بھی مسلمانوں کوہمدری اور اپنائیت کی باریک لیکن مضبوط تاروں سے جوڑ رکھا ہے۔فلسطین کا مسئلہ اول روز سے مسلمانوں کی وحدت کا مظہررہاہے۔ مسلمانوں کی انفرادی و ریاستی سطح پرایسی یکجہتی، ہم آہنگی، یگانگت اور جذباتیت کسی اور حوالے سے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔مسلمانوں کے درمیان، باوجود مسلکی و فقہی اختلافات کے، کوئی بھی مسئلہ اس جیسا متفقہ کبھی نہیں رہا۔یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ” مسئلہ فلسطین ”کسی مذہبی فریضہ کی سی اہمیت حاصل کا حامل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے حوالے سے جب بھی کوئی بری خبر ان تک پہنچتی ہے (وہاں سے کبھی کوئی اچھی خبر بھی آئے گی؟ )، مسلمانوں کے دل پھرسے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں اور آنکھیں الگ اشکبار سی ہو جاتی ہیں۔ اس سب کے باجود ،فلسطین کے حوالے سے ”مسلم امہ”کوجس بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ،وہ بھی اپنی جگہ تاریخ کا سنگین ترین باب ہے۔

ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کی قوت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ ایک ایشو کافی و وافی ہے۔سچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات، دنیا کی پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ یہی بتاتی ہے کہ فلسطینی ہی اس کے قدیمی باشندے ہیں۔یہودیوں کے اصل وطن کے حوالے سے اگرچہ اختلاف رائے موجود ہے تاہم بیشتر مورخین کے بقول یہ لوگ عراقی تھی(بابل کے ایک شہر اُر کے باسی) ۔کوئی دو ہزار قبل مسیح یہ لوگ فلسطین اور شام میں آن وارد ہوئے ۔حضرت اسماعیل و اسحاق کی اولاد عرب میں پھیلی جبکہ حضرت یعقوب جن کا لقب اسرائیل (بندئہ خدا)تھا ،کی نسل فلسطین میں پروان چڑھی ۔حضرت یوسف کے عزیز مصرہوجانے کے چند سال بعد انکا خاندان مصر منتقل ہوگیاجہاں بنی اسرائیل کو بہت عروج نصیب ہوا۔پھر فرعون (رعمیسس ثانی)کی غلامی میں وہاں سے نکال دیئے گئے۔ اپنے نجات دہندہ ،جناب موسی کی نافرمانی کے سبب یہ چہیتی اور لاڈلی قوم چالیس برس دشتِ ناران میں ماری ماری پھری ۔پھر نئی نسل یوشیع کی قیادت میں فلسطین میں داخل ہوئی۔ بعد میں مقامی لوگوں کو شکست دیکر فلسطین پر قابض ہوئی اور یوںبنی اسرائیل کی سلطنت وجود میں آئی۔

پھرحضرت داؤد نے جالوت کو شکست دیکر ارد گرد کے بہت سے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کیااور یروشلم کو فتح کر بیت المقدس کی تعمیر کی بنیاد رکھی جس کی تکمیل جناب سلیمان کے عہد میں ہوئی ۔اس عہد میں بنی اسرائیل نے خاصی ترقی کی۔بعدمیںہوا یہ نبی اسرائیل میں پھوٹ کے سبب مملکت دو حصوں (سامریہ و یہودہ )میں بٹ گئی۔اور آپسی جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔پھر مختلف ادوار میں فرعون مصر شیشک،تغلدبلاسرسوم،سرغون دوم،سناخریب،بخت نصر،ٹایلمی،شاہ انطیولس ان پر قہر خداوندی بن کر ٹوٹے۔رومیوں کی ہر ممکن کاسہ لیسی اور جناب زکریا و یحی ٰ(اور اپنے تئیں جناب عیسی )کو شہید کر دینے کے باوجود یہ بچ نہ پائے اور77عیسوی میں رومی فرمانروا ”ٹیٹس” نے پوری کر ڈالی ۔اس سے آگے بنی اسرائیل کی دربدری کا دوہزار سالہ عہد ہے ۔اس دوران قیصر بڈرین ،خسرو پرویزاور ہٹلر نے بنی اسرائیل کی نسل کشی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ مورخین کے بقول فلسطین میں صیہونیوں کاجزوی و کلی اقتدار زیادہ سے زیادہ چار صدیوں پر محیط ہے۔ لاڈلی قوم ایسی ظالم تھی کہ ہزاروں انبیاء کو شہید کر ڈالا۔ سعادت کو نحوست میں بدلا تو بربادی اس کا مقدر ٹھہری۔خلاصہ ا س سب کا یہ ہے کہ نبی اسرائیل کی اس دربدری میں اسلام کا کوئی ہاتھ ہے نہ فلسطینیوں کا۔یہ تو سب ہاتھ کی کمائی تھی جس کی نحوست عذاب کے درے مارتی رہی۔اور یہ بھی کہ وہ اس دیس کے قدیم باسی کبھی بھی نہیں رہے۔

عہد جدید میں صیہونیت کی پہلی چنگاری لیو پنسکرنے روشن کی۔1896میںتھیوڈہرزل نے ایک کتاب ”یہودی ملکیت”لکھ کر یہودیوں کے سیاسی شعور کو اور ہوا دی۔1911 تک ان میں ایک وطن کا تصور تو موجود تھا، صیہونی حکومت قائم کرنے کا نہ تھا۔لیکن باسل کے مقام پر منعقدہ دسویں کانفرنس میںجو اعلامیہ جاری ہوا اسکا ایک ٹکڑا یہ تھا۔”صیہونیت کا مدعا پوری قوم کے لئے سرکاری طور پرتسلیم شدہ اور قانونی طور پر حاصل شدہ فلسطین میں ایک وطن کاقیام ہے”۔چنانچہ1917میں برطانوی حکومت نے ”اعلان بالغور”میں یہودیوں کے اس حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔1948 میںامریکی صدر ٹرومین کی کو ششوں سے اسرائیل کی آزاد مملکت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جسے چند روز بعد روس نے بھی تسلیم کر لیا۔درمیان کے تیس سالہ دور میں(1918 تا1948)اسے یہودی سلطنت میں تبدیل کرنے کے لئے یہ حربہ آزمایا گیاکہ دنیا کے مختلف ممالک سے یہودیوں کو یہاں لاکر آباد کیا گیا۔نازی فوجیوں کے مظالم بھی لاکھوں یہودیوں کی فلسطین منتقلی کا سبب بنے۔

Palestine

Palestine

دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے کچھ پہلے برطانیہ میں لیبر پارٹی کو اقتدار نصیب ہواجس نے ایک قراردادکے تحت یہودیوں کے فلسطین میں غیر محدود داخلے اور عربوں کی بے دخلی کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی۔اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے گمراہ کن اقدام کی کامیابی کی راہ خوب ہموار ہوئی ۔اور آج نوے دس کا تناسب دس نوے میں بدل چکا ہے۔اپنی تخلیق کے بعد سے اسرائیل کے پھیلنے اور فلسطین کے سکڑنے کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔کئی اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر کے اسلامی وحدت پارہ پارہ کر چکے ہیں۔ فلسطینیوں کواپنے ہی وطن میں خیمہ بستیوں میں دھکیلنے،ان کی سرزمین کو ہتھیا لینے ،ایک محدود علاقے میں انکو محدود ومحصور کردینے اور ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک کر دینے کے بعد بھی صیہونیوں کا غصہ ابتک نہیں تھما۔گذشتہ چھیاسٹھ برس میں ہر ظلم روا رکھنے کے بعدبھی مظلوم فلسطینیوں کی خطائیںمعاف نہیں ہوئیں۔آج وہ یکتا تو تنہا اپنی بربادی پر نوحہ کناں ہیں۔

گذشتہ منگل سے جاری نئی دہشت گردی (تین اسرائیلیوں کی ہلاکت کوجواز بناکر ) نے عالم اسلام کو پھر سے دکھی کرڈالا ہے ۔550سے زائد راکٹ حملوں میں پونے دو سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔جبکہ حماس کے صرف دو راکٹ اسرائیلی سرزمین پر گرے ہیں(باقی فضامیں تباہ کر دئیے گئے ہیں) جن سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔اقوام متحدہ کے مطابق ہلاک ہونے وا لے 578 افرادمیں سے77 فیصد افراد عام شہری ہیں ۔بیسیوں بچے اور عورتیں بھی ان میں شامل ہیں ۔جن کی تصویروں نے پتھروں کو رلا ڈالا ہے ۔ان میں ایشیا ٹوڈے کی خاتون اینکر مارٹن بھی شامل ہیں ۔یہ خاتون لائیو پروگرام میں اسرائیلی جارحیت پر غلط بیانی سے کام نہ لے سکی اور پھٹ پڑی ۔”مجھے فلسطین سے محبت ہے۔جب جب اسرائیلی فوج حملہ آور ہوتی ہے تو میں اپنے دوستوں سے محروم ہو جاتی ہوں جو بے جرم و خطا مارے جاتے ہیں”۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ”اے بی سی”نیوزنے اپنی9 جولائی کی نشریات میںہلاک ہونے والے فلسطینی خاندانوں کو اسرائیلی بنا ڈالا ۔جس پر بعد میںانتظامیہ کو معذرت کرناپڑی۔زر،زور اور پروپگنڈے کے بل پراسرائیل کی طرف سے غنڈہ گردی کا سلسلہ جاری ہے۔پانچ سفید جھوٹ بڑی ڈھٹائی سے ساری صورت حال کو غلط رنگ دینے کیلئے بولے جارہے ہیں ۔پہلا یہ کہ اسرائیل کو اپنے شہریوںکے دفاع کیلئے یہ اقدام کرنا پڑ رہا ہے۔دوسرا یہ کہ اسرائیل ان حملوں میں عام شہریوںکی ہلاکت سے بچنے کیلئے کوشاں ہے۔تیسرا یہ کہ یہ سب امن و امان کی بحالی کیلئے ہو رہا ہے۔چوتھا یہ کہ اس سارے فساد کی جڑ حماس ہے ۔اور پانچواں یہ کہ فوجی آپریشن ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ کوئی بھی باضمیر انسان اسرائیل کی ان باتوںکو تسلیم نہیں کر سکتا ۔ہاں مگر عالمی دہشت گردوں امریکہ و برطانیہ کو کون سمجھائے؟جو خود تو ریڈ انڈینز اور آئر ش باشندوں کے قدیمی حق کو تسلیم نہیں کرتے نہ اندلس کی عوام کویہ ایساکوئی حق دینے پر تیار ہیں ۔ہاں ان کے پیٹ میں یہ مروڑفقط صیہونیوں کے حوالے سے اٹھتا ہے۔سچ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

Protest

Protest

لندن ،پیرس ،انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔فلسطینی سفیر نے درست کہا کہ مسلمان فٹبال کا ورلڈ کپ انجوائے کر رہے ہیں ۔لیکن شاید وہ بھول گئے ہیںکہ جدید خلیفہ صاحب انبیاء کرام کے مزارات تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ عرب دنیا خواب غفلت میں پڑی ہے ۔سعودی عرب کو اپنی انا سے بڑھ کوئی چیز عزیز نہیں۔مرگ بر امریکہ کے نعرے لگانے والے ایرانی شام و عراق میں مصروف ہیں۔فیس بک پر لوگ غیبی امداد کی دعائیں مانگ رہے ہیں (دشمن کے ہاتھ گریبان کی طرف بڑھیں تو ہاتھ دعا کے لئے نہیں اپنے وقار کی حفاظت کے لئے اٹھنے چاہئیں ) دوسری طرف اسرائیل نے کسی بھی عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے زمینی پیش قدمی شروع کر دی ہے۔

ایسے میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس نازک گھڑی مظلوم فلسطینیوںکا احساس کرتے ہوئے کوئی عملی قدم اٹھائے ۔غزہ میں برسوں پرانا منظر آج پھر سے دکھائی دے رہا ہے۔بین کرتی ،سینہ پیٹتی مائیں ہیں۔معصوم بچوں کے لاشے اٹھائے باپ ۔بچوں کی جلی ہوئی ،جھلسی ہوئی ،سربریدہ لاشیں ہیں ۔تباہ حال مکانات ہیں جن سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں اور عورتیں جو ہاتھ کے اشاروں سے دنیاکو اپنی تباہی کی داستان اشکوں کی زبانی سنا رہی ہیں۔ان کے ہاتھ فضا میں بلند ہیں اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور ان کے لب پر ایک نیا ترانہ گونج رہا ہے”پاکستانی فوج تم کہاں ہو ؟اے کروڑوں پاکستانیو!تم کہاں ہو ؟ہمار ی مد دکو آؤ…کیا تم ہماری آوازپر دھیان دو گے۔

Safdar Ali Heydari

Safdar Ali Heydari

تحریر : صفدر علی حیدری
(sahydri_5@yahoo.com)