میانمار میں وسیع پیمانے پر مظالم کے ارتکاب کا خدشہ، اقوام متحدہ

Myanmar

Myanmar

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ نے میانمار کے شمالی علاقوں میں فوج کی بھاری نفری کی تعیناتی پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ میانمار میں رواں برس یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے مسلسل انتشار کی صورت حال ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ میانمار میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ ملکی فوج کی بہت بھاری نفری شمالی علاقوں میں تعینات کی جا رہی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہاں کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بہت زیادہ انسان ہلاک ہو سکتے ہیں۔

اس تناظر میں میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی وقائع نگار ٹام اینڈریو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو وسیع پیمانے پر مظالم کے ارتکاب کی کسی بڑی خبر کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میانمار کے لیے عالمی ادارے کے مقرر کردہ خصوصی وقائع نگار ٹام اینڈریو نے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وہاں وسیع پیمانے پر مظالم کے ارتکاب کا خدشہ ظاہر کیا۔ میانمار سے متعلق اس رپورٹ میں وہاں گزشتہ ایک سال کے حالات و واقعات کا جائزہ شامل ہے۔

اس رپورٹ میں خاص طور پر انسانی حقوق کی صورت حال کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ٹام اینڈریو نے جنرل اسمبلی میں اقوام عالم کے نمائندوں کو بتایا کہ انہیں میانمار کے شمال اور شمال مغرب میں ہزاروں فوجیوں کے متعین کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں ان فوجیوں کے ساتھ بھاری ہتھیار اور گولہ بارود بھی پہنچائے گئے ہیں۔

ٹام اینڈریو نے یہ بھی کہا کہ یہ امکان ہو سکتا ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں ملوث ہو۔

ان کے مطابق اس وقت فوجی نقل و حرکت ویسی ہی ہے، جیسی سن 2016 اور 2017 میں راکھین کی ریاست میں آباد روہنگیا مسلم اقلیتی آبادی کی نسل کشی کے لیے کیے گئے حملوں کے وقت دیکھی گئی تھی۔

تب اس فوجی کارروائی کے دوران سات لاکھ چالیس ہزار روہنگیا باشندے اپنی جانیں بچا کر خاص طور پر بنگلہ دیش اور اور سمندری راستوں سے مشرقِ بعید کے ممالک کی جانب چلے گئے تھے۔ اس کریک ڈاؤن کے دوران اس اقلیتی آبادی کے کئی دیہات تباہ کر دیے گئے اور ہزاروں روہنگیا باشندے مارے بھی گئے تھے۔

اقوام متحدہ کے اس خصوصی اہلکار نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت کو جہاں مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی روکی جائے وہیں پر اس کو جائز قرار دینے کا کوئی فیصلہ بھی نہ کیا جائے۔

فوجی حکومت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں میانمار کے ہر طبقے نے صدائے احتجاج بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے

انہوں نے اپنی اس رپورٹ میں حال ہی میں ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا بھی ذکر کیا۔ گزشتہ پیر کے روز میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ مِن آنگ ہلینگ نے رواں برس یکم فروری کے بعد شروع ہونے والے عوامی احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے پانچ ہزار سے زائد افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

میانمار ہی کے حوالے سے ایک اور پیش رفت یہ بھی دیکھنے میں آ چکی ہے کہ رواں ماہ کے اواخر میں ہونے والی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے سربراہی اجلاس میں میانمار میں فوجی حکومت کے سربراہ کو شرکت سے روک دیا گیا ہے۔